ابھی ہارا کہاں ہوں میں ‘ابھی تو جنگ باقی ہے

الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں الیکشن ملتوی ہونے کے حوالے سے دو آراء سامنے آنے کے بعد ایک نئے آئینی بحران کی باز گشت سنائی دے رہی ہے’ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر کہا ہے کہ ملک آئینی بحران سے بچ گیا ہے۔ مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بعد ملک میں اکٹھے انتخابات ہوں گے الیکشن کمیشن نے معاشی، سیاسی اور سیکورٹی صورتحال کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیا ہے ، 30اپریل کو دو صوبوں کے الیکشن ہوتے تو ہمیشہ کے لئے تنازعہ ہو جاتا۔ اسی طرح وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا موقف ہے کہ ملک میں اکٹھے انتخابات ہی تمام بحرانوں کا حل ہے۔ انہوں نے بھی وزیر اطلاعات کے اس موقف کو دوہرایا ہے کہ دو صوبوں میں اگر الگ الگ الیکشن کرایا گیا تو یہ مستقل بجران کی شکل اختیار کرلے گا آئین کہتا ہے کہ 90 روز میں ایک ساتھ انتخابات ہوں ۔ اکٹھے الیکشن میں صرف ایک اضافی بیلٹ پیر درکار ہوتا ہے۔ دو صوبائی اسمبلیاں عمران خان کی انا کی بھینٹ چڑھا دی گئیں’کیا ایک صفحہ پر آکر اسمبلی تحلیل کرنا آئین کی خلاف ورزی نہیں تھی ؟ ادھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کے الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرکے آئین شکنی کی ہے ‘جبکہ تحریک انصاف نے اس مسئلے پر سپریم کورٹ جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ ان دو متضاد بیانیوں کے ساتھ اتفاق اور اختلاف بھی سامنے آرہے ہیں، سپر یم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے آئین کی منسوخی قراردیا ہے۔ جبکہ سینئر قانون دان اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے پنجاب اور کے پی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کے مسئلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن ممبران کے خلاف عدالتی حکم نہ ماننے پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں اگر 90 روز میں انتخابات کا ذکر ہے تو آئین میں یہ بھی درج ہے کہ اگر کوئی چیز بروقت نہ ہو سکے تو وہ بعد میں بھی کی جا سکتی ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست ہے ‘ دوسری جانب سابق صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ یہ آئین کی معطلی کے مترادف ہے سب سے پہلے توہین عدالت الیکشن کمیشن کے ارکان کے خلاف لگے گی اور جن ا فراد نے الیکشن کے بقول ان سے تعاون کرنے سے انکار کیا ہے ان کے خلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی ہو گی ۔ اس سلسلے میں کچھ دیگر آئینی اور قانونی ماہرین کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جن میں دونوں جانب کے بیانیوں کے ساتھ اتفاق اور عدم اتفاق کا اظہار کیا گیا ہے ‘ تاہم وفاقی وزیر قانون سیاسی ڈائیلاگ کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عمران خان سیاسی ڈائیلاگ چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں ‘ اس حوالے سے تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما فواد چوہدری کے حالیہ بیانات میں بھی اسی قسم کے اشارے واضح ہوئے تھے اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ وفاقی وزیر قانون نے اس سلسلے میں بیان دے کر سیاسی ڈائیلاگ کی راہ ہموار کر لی ہے ۔ الیکشن کے التواء کے حوالے سے جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے بعد نظر بہ ظاہر تو ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کی کیفیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ‘ اور حکومتی وزراء نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کی بنیاد بھی اتنی کمزور نہیں ہے جس سے آنکھیں موند لی جائیں ‘ سب سے اہم نکتہ تو یہ ہے کہ اگر دو صوبوں کے اندر انتخابات کرائے گئے تو یہ مستقل طور پر ملک کے لئے مشکلات کا باعث بن جائیں گے اور ہر پانچ سال بعد یہی صورتحال رہے گی کہ عام انتخابات سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کرائے جائیں گے جس سے نئے مسائل جنم لیں گے ‘ کیونکہ دونوں صوبوں کی منتخب حکومتیں عام انتخابات پر اثر انداز ہو کر عام انتخابات کو بھی متنازعہ بناتی رہیں گی ‘ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس وقت ملک بھرمیں مردم شماری جاری ہے اور اس کا مطالبہ بھی آئین کے تحت سیاسی جماعتوں نے کیا جس کے بعد عمران حکومت کے دوران ہی اس پراسیس کو عملی صورت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور بغیر مردم شماری انتخابات بھی آئین کی خلاف ورزی ہے ‘ ایک اور اہم نکتہ انتخابات کے لئے جملہ وسائل کی فراہمی یقینی بنانا بھی ضروری ہے یعنی سیکورٹی ا ہلکاروں کی پولنگ کے دوران تعیناتی ‘ انتخابی عملے کی فراہمی کی ذمہ داری ‘ ضروری فنڈز کی دستیابی جبکہ ا ن تینوں شعبوں کے حوالے سے صورتحال پر غیر یقینی کے سائے منڈلا رہے ہیں ‘خصوصاً انتخابات پراٹھنے والے اربوں کے اخراجات کی موجودہ مالی بحران کی وجہ سے عدم دستیابی ایسے مسائل ہیں جن پر کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیںبہرحال اور جیسا کہ نظر آتا ہے اب یہ معاملہ شاید ایک بار پھر عدالتوں میں ہی طے ہو جس کی طرف تحریک انصاف نے اشارہ بھی کیا ہے لیکن وفاقی وزیر قانون کی جانب سے سیاسی ڈائیلاگ کی پیشکش بھی قابل توجہ امر ہے اور بہتر یہی ہے کہ ملکی مفاد اور موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اتحادی حکومت اور تحریک انصاف اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے گفت و شنید سے کام لیتے ہوئے اس بحران کو حل کریں یہی قومی مفاد کا تقاضا ہے اور یہی اس مسئلے کا حل ہے ۔ اگرچہ اس منتشرالخیالی پر شاعر نے بھی بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے کہ
کس کا یقین کیجئے ‘ کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
اس حوالے سے محولہ بالا دو آراء کے بالکل برعکس ایک تیسری رائے بھی سامنے آئی ہے’ پی ٹی آئی کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے ایک ٹی وی اینکر حامد میر کے پروگرام میں اگرچہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اپنی جماعت کے موقف کے مطابق توہین عدالت ضرور قرار دیا ہے لیکن ایک ضمنی بات یہ کہی ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے یعنی الیکشن منعقد کرنے سے انکار کے بعد پرویز الٰہی حکومت بحال ہو گئی ہے ‘ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان نجومی بھی بن گئے ہیں ‘ انہیں پتا ہے کہ 8اکتوبر کے بعد ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں گی ‘ نگران حکومت پی ڈی ایم کی حکومت نظر آتی ہے نگران سیٹ اپ صرف انتخابات کروانے کے لئے آتا ہے ۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا یہ نکتہ یقینا قانونی موشگافی کے زمرے میں آتا ہے اور ماہرین قانون کا یہی تو کمال ہے کہ وہ کسی بھی زیر بحث مقدمے میں اپنے اپنے نکتہ نظر کے مطابق روشنی ڈالتے ہوئے عدالت کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش کرتے ہیں’ چونکہ یہ ایک بالکل ہی الگ نکتہ نظر ہے اور اگر پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرتی ہے (اطلاعات یہی ہیں کہ عدالت نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ شیخ رشید نے بھی ان سطور کے لکھتے لمحے عدالت سے رجوع کر بھی لیا ہے ) اور اس موقف کے حوالے سے عدالت میں بحث کی بھی جاتی ہے یا نہیں یعنی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پرویز الٰہی کی حکومت خود بخود بحال ہو گئی ہے اس کے بعد یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ اس نکتے کو کتنی اہمیت دیتی ہے اگرچہ سینئر وکلا توہین عدالت کے نظریئے سے متفق نہیں ہیں پھر بھی آخری فیصلہ تو عدالت ہی کا ہو گا اور الیکشن کمیشن اپنے طور پر ایک آئینی ادارہ ہے جس پر واقفان آئین و قانون کے مطابق توہین عدالت عاید نہیں کی جا سکتی ‘ ادھر پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب بھی اس بات سے متفق ہیں کہ حکومت اور تحریک ا نصاف میں بات چیت کے سوا کوئی چارہ نہیں بہرحال ان نکتہ ہائے نظر میں بعد المشرقین کی اس صورتحال پر بقول قیصر وجدی یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ابھی تیشہ سلامت ہے ‘ ابھی تو سنگ باقی ہے
ابھی ہارا کہاںہوں’ میں ابھی تو جنگ باقی ہے

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے