جامعات بندش کے دروازے پر

جامعہ پشاور میں جائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے کئی ہفتوں سے جاری ہڑتال کے باعث جامعہ کے طلبہ شدید مشکلات کا شکار ہے موسم بہار کی تعطیلات کے بعد بھی یونیورسٹی میں کلاسز تا حال شروع نہ ہو سکیں جبکہ ہاسٹلز میں مقیم طلبہ بھی رمضان المبارک میں شدید پریشانی سے دو چار ہیں،ہاسٹلز میں صفائی ستھرائی کی ابتر صورت حال ہے، سنیٹیشن سٹاف کے ہڑتال کی وجہ سے ہاسٹلز گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ ہاسٹلز کے میس بھی بند پڑے ہے جس پر طلبہ باہرسے کھانے پینے کی اشیاء لانے پر مجبور ہیں خصوصی طور پر طالبات کو اس سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے دوسری جانب اساتذہ اور ملازمین کی ہڑتا ل ختم ہونیکا کا نام ہی نہیں لے رہا اور اندیشہ ہے کہ ہڑتال مزید طویل ہوگی ہاسٹلز میں مقیم طلباء و طالبات نے گورنر خیبر پختونخوا سے مطالبہ کیا ہے کہ پشاور یونیورسٹی میں جاری صورت حال کا نوٹس لیکر سنجیدگی سے اقدامات اٹھا کر مسائل کو حل کیا جائے تاکہ طلبہ کو ریلیف مل سکے۔سرکاری جامعات کی سمسٹر فیس اب بعض نجی جامعات کے برابر اور بعض سے زیادہ ہو چکی ہیں اس کے باوجود ان جامعات میں طلبہ شاید رہائشی سہولت کے باعث ہی داخلہ لیتے ہیں جامعات کی بار بار بندش اور خاص طور پر حالیہ دنوں میں جامعہ پشاور اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں پے درپے قتل کے واقعات سے تو طلبہ اور اساتذہ دونوں کی سلامتی ہی خطرے سے دو چارنظر آتی ہے جس سے قطع نظر اب سرکاری جامعات میں تدریس کا عمل مختلف واقعات کے باعث معطل رہنا معمول بن گیا ہے جبکہ تدریسی عملے کی مستقل بھرتی کی بجائے وزٹنگ فیکلٹی کے حوالے کرنے سے بھی تدریسی عمل تسلی بخش نہیں رہا اس کے مقابلے میں نجی جامعات کی صورتحال کافی بہتر نظر آتی ہے یہی حال رہا تو جس طرح پبلک سکولز ہی طلبہ اور والدین کی اولین ترجیح بن چکی ہیں یہی حال سرکاری کالجوں اور خاص طور پر جامعات کا بھی ہونے کا خدشہ ہے جس صورتحال کی ہمارے نمائندے نے تفصیل سے نشاندہی کی ہے اس میں تعلیم و تدریس ثانوی امر نظر آتی ہے ان مسائل کا سنجیدگی سے نوٹس لے کر ان کا حل تلاش نہ کیا گیا تو سرکاری جامعات میں داخلہ لینے والے بھی ملنا مشکل ہو جائیں گے امید کی جانی چاہئے کہ یہ نوبت نہیں آنے دی جائے گی۔توقع کی جانی چاہئے کہ گورنر خیبر پختونخوا بطور چانسلرسرکاری جامعات کی زبوں حالی اور بدانتظامیوں کا نوٹس لیں گے اور خاص طور پر طلباء کو اس صورتحال سے نکالنے میںاپناکردار ادا کریں گے۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم