تجاوزات کی بھرمار

پشاور میں تجاوزات مافیا نے شہر کی سڑکوں کو پیدل چلنے والے شہریوں کیلئے بھی تنگ کر دیا ہے جبکہ سارا دن سڑکوں پر موجود ہتھ ریڑھی بان افطار سے قبل سڑکوں کو مکمل طور پر بند کر دیتے ہیں۔مختلف اشیاء خوردونوش فروخت کرنے والے ہتھ ریڑھی بانوں نے بھی سڑک پر قبضہ کر رکھا ہے جس کے باعث خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت پیدل چلنے والے افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے پشاور کی سڑکوں پر گاڑیوں کیلئے بھی سفر کرنا محال ہو گیا ہے اندرون شہر زیادہ ترمقامات پر رکشہ اور چنگ چی سٹینڈ قائم کر لئے گئے ہیں جو سواریوں کے انتظار میں سڑک کنارے ہی کھڑے رہتے ہیں ۔اور ان کی موجودگی کے باعث سڑک کئی کئی گھنٹوں تک جام رہتی ہے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ ضلعی انتظامیہ نہ تو ان رکشہ اور چنگ چی کے غیر قانونی سٹینڈز کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی ہتھ ریڑھی بانوں کیلئے کوئی انتظام موجود ہیخواتین کے بازاروں میں بھی دکانداروں نے عارضی تجاوزات قائم کرنا معمول بنا لیا ہے چوڑیوں، کپڑوں اور عید کیلئے دیگر سامان کی فروخت کیلئے دکانوں کے باہر لگائے گئے سٹالز کے باعث راستے تنگ ہو گئے اور خواتین کو خریداری میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاورمیں ہردور حکومت میں تجاوزات کے خلاف مہم کاچرچہ تورہا ہے لیکن سوائے ایک مرتبہ کے کسی بھی دور میں پشاور کو سنجیدگی کے ساتھ تجاوزات سے پاک کرنے کا عمل نہیں کیاگیابدقسمتی سے اس کامیاب مہم کے فوراً بعد سے ہی آہستہ آہستہ تجاوزات دوبارہ شروع ہونے لگیں آج پشاور شہر کا کوئی بھی علاقہ تجاوزات سے پاک نہیںتجاوزات ہٹانے میں سیاسی حکومتوں کو مختلف قسم کے دبائو کا سامنا رہتا ہے اورکوئی بھی سیاسی حکومت تاجروں جیسے بااثر طبقے کی مخالفت مول لینے کی ہمت نہیں رکھتی یہ معاملہ اپنی جگہ لیکن اس وقت صوبے میں نگران حکومت قائم ہے اس کی کوئی ایسی مجبوری نہیں سوائے اس کے کہ وقتی دبائو اور احتجاج کا سامنا کیاجائے حکومت عزم کرے تو یہ کوئی بڑی بات نہیںہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پشاورکو تجاوزات سے پاک کرنے کے لئے اگر ٹھوس اور بڑے اقدامات مشکل ہوں تو کم از کم بازاروں اور فٹ پاتھوں کو پیدل چلنے والے افراد کے لئے ہی کھول دیا جائے یہ درست ہے کہ اس طرح سے چھوٹے چھوٹے کاروباری افراد متاثر ہوں گے بلکہ ان کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا یہ بھی بہرحال ایک توجہ طلب اور عوامی مسئلہ ہے جس کا حل ان افراد کو کسی موزوں جگہ منتقل کرکے تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم