اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی

ملک میں ہمیشہ ہی جمہوریت کے نام پرکھیل ہی کھیلا گیاجمہوری نظام کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت تمام اداروں کو مفلوج کیے رکھا لہٰذا خرابی کے خاتمے کیلئے غیرآئینی کارروائیوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔اس وقت اگر چہ ملک میں سیاسی فضا میں ارتعاش ہے اورکسی طور پر نظرنہیں آتا کہ سیاسی قوتیں مل بیٹھیں گی لیکن خواہ جتنے بھی اختلافات ہوں بالاخر سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر ہی صورتحال سے نکلنا ہوتا ہے ماضی میں مارشل لاء بھی لگے اور ایمرجنسی بھی لگی لیکن بالاخر حکومت اور معاملات کو سیاستدانوں ہی کو منتقل کرنا پڑا ایک جمہوری ملک میں سیاسی نظام میں وقتی مداخلت تو ہوسکتی ہے لیکن بالاخر جمہوری اداروں ہی سے رجوع اور سیاستدانوں کو اقتدار سونپنے کی نوبت آجاتی ہے اس وقت قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبداری اختیار کرچکی ہے معاملات حکمرانوں اور حزب اختلاف کے درمیان ہے۔جہاں اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرایا جائے وہاں اس کے بغیر حکومت سازی میں سیاستدانوں کی ناکامی کا بھی واضح طور پر تذکرہ موجود ہے چونکہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبداری کااعلان کرکے اب تک اس پرقائم ہے بنا بریں اب بال سیاستدانوں کے کورٹ میں آگئی ہے یہ سیاستدانوں کاامتحان ہو گا کہ وہ اپنے معاملات اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھے بغیر باہم مل بیٹھ کرحل کریںاور ایوان و جمہوریت کو مضبوط بنائیں اگرچہ فی الوقت صورتحال تسلی بخش نہیں لیکن گمان ہے کہ جلد ہی تحریک انصاف بھی سیاسی معاملات کوسیاسی میدان میں ہی حل کرنے واسطے سیاسی جماعتوں سے معاملت پر آمادہ ہوگی دیگر سیاسی جماعتوں میںمفاہمت اورتحریک انصاف کے سیاسی معاملات کے سیاسی حل کے لئے مذاکرات خواہ وہ کھلے عام ہوں یا پھر درپردہ یہ منزل آجائے توپھر ملک میں سیاسی استحکام کے عمل کاآغاز ہو گا جس کے لئے سیاسی جماعتوں کو مل کر جتن کرنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ آمروں کے ہاتھوں کس قدر بے وقعتی کا شکار رہے ہیںسیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک ہوتا رہا ہے اور خود سیاسی جماعتوں کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے اثرات اور نتائج کیا نکلتے رہے ہیں وہ کوئی فراموش کرنے والی بات نہیں مگرافسوس ناک ا مر یہ ہے کہ خود سیاست دان ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں اس صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ بھلے لاتعلقی اختیار کرکے اپنے کام سے کام رکھ چکی ہو مگر جب ملک کے حالات سیاست دانوں کے ہاتھوں اس نہج کو پہنچ جائیںتو کیا یہ ممکن ہو گاکہ کسی بھی جانب سے مداخلت نہ ہو اور بیٹھ کر تماشا دیکھا جائے۔

مزید پڑھیں:  درست سمت سفر