مشرقیات

عبد اللہ بن مبارک مرو میں رہتے تھے مرو خراسان کے شمال میں واقع ہے اور شام سے کالے کوسوں دور ہے ایک مرتبہ اپنے وطن سے وہ شام گئے یہ اس زمانے کی بات ہے جب نہ راستے اچھے تھے نہ تیز چلنے والی گاڑیاں تھیں سفر کیا تھا ایک مسلسل مصیبت اس لئے سفر پر نکلنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔
عبد اللہ تاجر تھے ‘ تاجر ہی نہیں بہت بڑے عالم بھی تھے، عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عمل کے بھی دھنی تھے، راتیں جاگ کر گزارتے اور دن میں دین کی خدمت کرتے رہتے جب اعلان جہاد ہوتا تلوار سونت کر میدان جنگ میں کود پڑتے۔ اللہ نے بہت کچھ دیا تھا اس دولت کا پورا فائدہ اٹھاتے یعنی بے دریغ اللہ کی راہ میں لٹاتے ایک مرتبہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن مبارک کی خدمت میں حاضر ہوا بولا حضرت کچھ برے دن آئے ہیں سخت پریشانی میں ہوں، قرض وام کرکے گھر چلا لیتا تھا اب یہ بھی مشکل نظرآتا ہے کیونکہ قرض بہت بڑھ گیا ہے۔
عبداللہ بن مبارک نے جو کچھ کہا اس کا مطلب تھا کہ کوئی بات نہیں اللہ پر بھروسہ رکھو اور روزگار کی تلاش میں رہو فی الحال میرا یہ پرچہ لے جائو میرے معتمد کو دے دینا وہ صاحب پرچہ لے کر معتمد کے پاس پہنچے اسے پرچہ دیا اس نے پرچہ کھولا تو دیکھا کہ اس میں خاصی بڑی رقم دینے کی ہدایت تھی معتمد نے ویسے ہی پوچھا کیوں جناب کتنی رقم کی آپ کو ضرورت ہے؟ اس اللہ کے نیک بندے نے کہا سات سو درہم کا قرض ہے اس کا ذکر میں نے عبد اللہ بن مبارک سے کیا تھا کیا انہوں نے یہ رقم دینے کے لئے تمہیں لکھا ہے؟ اس نے کہا ہاں مگر تم ذرا میرا یہ پرچہ انہیں لے جا کر دینا رقم تمہیں مل جائے گی وہ پریشان حال اللہ کا بندہ معتمد کا پرچہ لے کر پھر ابن مبارک کے پاس پہنچا پرچہ پڑھ کر ابن مبارک کو بڑی تکلیف ہوئی معتمد نے پوچھا تھا یہ شخص سات سو کا مقروض ہے آپ نے اسے سات ہزار درم دینے کو لکھا ہے لکھنے میں کچھ سہو تو نہیں ہوا؟۔
عبداللہ بن مبارک بہت بڑے محدث تھے انہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ایک بات یاد تھی جو رزق اللہ نے دیا تھا وہ اس میں سے بڑی سے بڑی ر قم اللہ کے ضرورت مند بندوں پر خرچ کرنا چاہتے تھے انہیں معتمد کی باریک بینی کچھ اچھی نہ معلوم ہوئی جواب میں اسے لکھا کہ میری تحریر ملتے ہی اس شخص کوچودہ ہزار درم دے دو، انتظار مت کرو اور فوراً دے دو تاکید ہے اس نے سات سو مانگے تھے میں نے سات ہزار پیش کئے تھے ظالم تو نے میری لذت ایمانی کو مول تول کی نذر کر دیا اب اسے معلوم ہے کہ سات ہزار ملیں گے اس لئے اسے چودہ ہزار دو یہ رقم اس کے لئے غیر متوقع ہو گی وہ کہتے تھے اللہ کے نبیۖ کا فرمان ہے کہ جو شخص بھی کسی مسلمان کو اچانک خوش کر دے گا یعنی مانگنے والے کی خواہش سے بڑھ کر دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور جوکچھ اس نے اللہ کی راہ میں دیا ہے اس سے کہیں بڑھ کر لوٹا دے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ (ترجمہ) کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا جائے گا اس سے کہیں بڑھ کراسے لوٹا دیا جائے گا اور اس میں ذرا کمی نہ ہوگی۔

مزید پڑھیں:  درست سمت سفر