موسموں کی بے موسمیاں

ملک میں جون کی شروعات ہے مگر موسم کی چال سے یہ بالکل نہیں لگتا کہ سخت گرمیوں کا موسم ہے۔آج صبح اتنی بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گیا اور سخت گرمی کے موسم میں بھی سردی کا گمان ہونے لگا۔
موسموں کی یہ بیموسمیاں حیران کن حد تک بڑھ چکی ہیں۔اب نومبر دسمبر بھی اتنے سرد نہیں ہوتے، مئی جون بھی پہلے جیسے شدید گرم نہیں رہے۔ یہ سب حیران کن ہے کیونکہ آج سے ایک عشرہ پہلے مارچ کے اواخر میں سخت گرمی اور اکتوبر کے اختتام پر سردی سٹارٹ ہو جایا کرتی تھی۔کیا موسم کی یہ تبدیلی آب و ہوا کے خداء نظام میں بگاڑکا سبب تو نہیں ہے؟۔
جی ہاں! یہی قدرت کے موسموں میں بگاڑ ہے۔اسی کو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا نام دیا جاتا ہے اور یہ انسانی بقا کے لحاظ سے موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔زمین کا بتدریج بڑھتا درجہ حرارت قدرت کے نظام میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ موسم شدید سے شدید تر ہو رہے ہیں۔ پہاڑوں پر جمی برف اور گلیشیئرز پگھل رہے ہیں جس سے زندگی مسائل کا شکار ہورہی ہے۔ اس مسئلہ پر ابھی سے اجتماعی طور پر غور نہ کیا گیا تو زمین سے زندگی کے ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں یا گلوبل وارمنگ دراصل کارخانوں اور ذرائع آمدورفت کی وجہ سے فضا میں زہریلی گیسوں کے بہت زیادہ اخراج کے باعث دنیا کا درجہ حرارت بڑھنے،جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور دیگر قدرتی وسائل مثلا پانی،لکڑی اور زمین کے معاملے میں حد درجہ بے احتیاطی کا ثمر ہے۔المختصر یہ ہمارے اپنے معمولات اور خواہشات میں عدم توازن کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں زندگی کو سخت خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
عام انسان کو تو شاید ان بیموسمیوں کا احساس نہ ہو لیکن شدید گرمی کے موسم میں گرمی نہ ہونے، سردی کی شدت کم ہوجانے اور معتدل موسم بھی گرمی یا سردی کی نذر ہو جانے سے زراعت پر جو تباہ کن اثرات پڑتے ہیں ان کا سوچ کر ہی لرز جاتا ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک تو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اپنے لیے کچھ نا کچھ ثمر آور اقدامات کر رہے ہیں لیکن ترقی پزیر اور غریب ممالک مالی مسائل اور وسائل کی کمی کے باعث کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک پاکستان بھی انھی ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک کی عالمی درجہ بندی میں ہمارا پانچواں نمبر ہے۔
گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان میں بیحد موسمیاتی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔ کبھی شدید گرمی تو کبھی خشک سالی اور سیلاب ہر سال ہمارے لئے آبی و غذائی پریشانیوں کا سبب بن رہے ہیں۔پاکستان کا درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے. انسان، حیوان، فصلیں غرض ہر چیز متاثر ہورہی ہیںہمارے ملک کے نظام کے ساتھ گزشتہ 75 سال میں ایسا کھلواڑ کیا گیا ہے کہ اب اگر کچھ دیر بارش نہ ہو تو خشک سالی اور اگر بارشیں معمول سے زیادہ ہوں تو سیلاب کا خطرہ لہرانے لگتا ہے. ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں لیکن حکومتیں اس طرف سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دیتیں۔ ڈیم جتنے زیادہ ہونگے اتنا پانی ذخیرہ ہوگا، بجلی بنے گی، سیلابوں پر قابو پایا جاسکے گا اوردیگر کئی معاشی و موسمیاتی فوائد حاصل ہونگے مگر بدقسمتی سے ہمارے قدرتی وسائل سے بھرپور ملک کو مخلص قیادت کی کمی درپیش ہے۔
شجرکاری بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ درخت ہوا سے گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جذب کرتے ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ درسگاہوں، مساجد اور میڈیا کے ذریعے شعور اور اس مسئلے کی سنگینی کا احساس بیدار کیا جائے۔ وقتا فوقتا مختلف سیمنارز میں اس موضوع کو اٹھا کر نئی نسل کی ذہن سازی کی جائے اور انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق معلومات اور ان سے نمٹنے کی آگاہی فراہم کی جانی چاہیے تاکہ لوگ اپنی طرز زندگی میں تبدیلی لاتے ہوئے شجر کاری، پانی کے بیدریغ استعمال سے پرہیز اور مصنوعی انداز زندگی چھوڑنے کی طرف متوجہ ہوں تاکہ اس مسئلے کی راہ روکی جا سکے۔
ذرا خود ہی سوچیں کہ جب بارش کی ضرورت ہو اور وہ روٹھ جائے یا جب اس کی ضرورت نہ ہو تو وہ نقصان پہنچانے برس پڑے اور اسی طرح سیلاب بڑھ جانے سے ملک اور عوام کو جانی ومالی نقصانات اور بیماریاں معیشت کا حال بے حال کر دیں تو ان اثرات سے کون اور کب تک بچ سکے گا۔
سائنسدانوں کے مطابق ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 45 فیصد کمی کرنا ہو گی ورنہ ہمیں درجہ حرارت میں تباہ کن حد تک اضافہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ اب ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے اکثر سامنا کرنا پڑے گا، کبھی کبھار آنے والا سیلاب اب ہر سال آئے گا۔ اب ہمارا اولین فرض بنتا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنے گھروں اور اداروں میں پودے لگائیں، اے سی فلٹرز صاف رکھیں، گیزر ڈھانپ کر رکھیں، گاڑیوں کی بجائے پیدل چلنے ، سائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیں اور اپنی گاڑیوں کے انجن ٹھیک رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے طرز زندگی میں زیادہ سے زیادہ سادگی اپنائیں ورنہ قدرت سے لڑائی کی سزا ہماری نسلوں تک کو کھا جائے گی۔قدرتی طرز زندگی کو چھوڑ کر آسائشوں کے چکر میں ہم اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔جنگلات کاٹ ڈالے، گھروں اور گلیوں کو سیمنٹ اور لوہے سے اٹ ڈالا، زراعت پر پلاٹنگ کو ترجیح دینے لگے، گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں کا سد باب نہ کیا، پہاڑ ننگے کر دیے۔پیسہ بڑھاتے بڑھاتے زندگی گھٹانے کا سبب بن بیٹھے۔۔ہم کیا کر بیٹھے۔
جتنا حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ ماحول دوست اقدامات کرتے ہوئے شجر کاری کی طرف توجہ دیں،کارخانوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکیں، نئے شہر بسائیں ، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا درست نظام بنائیں اور گرین انرجی کا استعمال عام کریں، اتنا ہی ہمارا فرض بھی بنتا ہے کہ اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی نعمتوں کی قدر کریں اور ان کے بیدریغ استعمال سے اجتناب کریں۔ اپنے گھروں سے سٹارٹ لیتے ہوئے بجلی کے استعمال کو کم سے کم کریں اور انرجی سیور یا سولر انرجی سسٹم کی طرف آئیں، کپڑے اور برتن دھونے سے لیکر نہانے تک ہر مقام پر پانی کے بیدریغ استعمال سے بچیں، پلاسٹک سے بنی اشیا سے پرہیز اور گندگی بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے اجتناب کریں اور یوں گھروں سے شروع کر کے پورے معاشرے تک اس عمل و شعور کو پھیلائیں تاکہ ہماری دنیا اور آنے والی نسلیں موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے مضر اثرات سے بچ جائیں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں عقل شعور کی اعلی منزلیں عطا کرے اور ہدایت کی شمع نصیب کرے تاکہ ہمارے ہاتھوں سے ساری دنیا کے لیے آسانیاں پھیلیں۔۔آمین ثم آمین۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش