مشرقیات

سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو بھی قوم کسی مجلس سے اٹھے، اس میں اللہ کا ذکر نہ کیا ہو، وہ گویا مردار گدھے کی لاش سے اٹھی ہے۔ ان پر ذکر ِ الہی نہ کرنے کا افسوس رہے گا۔(ابو دائود)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام فہم قرآن و حدیث کے لیے مجلسیں بناکر کسی ایک جگہ جمع ہوتے تھے، جہاں وہ مختلف ملی، سماجی اور دینی مسائل پر گفتگو کرتے۔ ہر ایک کی حالت سے واقفیت بھی حاصل کرتے تھے۔ اس سلسلے میں حدیث جبریل کو واضح مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت صحابہ کرام آپۖ کے پاس بیٹھ کر دین کی باتیں سیکھ رہے تھے۔
سیدنا عبداللہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہۖ چٹائی پر سوگئے، جب بیدار ہوئے تو پہلو پر نشانات تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپۖ کے لیے بستر تیار کردیں۔ آپۖ نے فرمایا: میرا دنیا سے کیا تعلق، میں تو دنیا میں صرف اس راہی کی طرح ہوں، جو آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے رکا پھر آرام کیا اور چلتا بنا۔(ترمذی)
قرآن و حدیث کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی بہ نسبت آخرت کی زندگی طویل اور دیرپا ہے۔ اس لیے اخروی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی بار بار ترغیب دی گئی ہے۔ دنیوی زندگی کو دارالعمل کہا گیا۔ یہاں بندہ اگر اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، اچھے اور بہتر اعمال کرے، اس کا اچھا بدلہ اس کو آخرت میں ملے گا۔ قیامت کے بعد آنے والی اخروی زندگی کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز زیادہ اہم ہوتی ہے، اسی اعتبار سے اس کی تیاری کی جاتی ہے۔
اس حدیث سے رسول اللہۖ کا اسوہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپۖ دنیا کو کس طرح برتتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اسی کی تعلیم دیتے تھے۔ اس حدیث میں آپۖ نے دنیا و آخرت کی زندگی کو تمثیلی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی اس قدر مختصر ہے، جس طرح ایک راہ گیر چلتے چلتے تھک کر کسی درخت کے زیرسایہ آرام کرنے کے لیے رکے، تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد پھر راستہ لے لے۔ سفر میں آدمی کا زیادہ وقت سفر میں گزرتا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں چند گھنٹے ہی وہ آرام کرتا ہے۔ یہی حال دنیوی زندگی کا ہونا چاہیے کہ آدمی حرکت میں رہے، نیک اعمال کا ذخیرہ کرے تاکہ اخروی زندگی میں اس سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔اس تمثیل کے مطابق دنیوی زندگی بہت تیزی سے گزر رہی ہے۔ زندگی ختم ہونے سے پہلے نیک اعمال کرلینے چاہئیں۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپۖ کے اس طرزِعمل کو دیکھ کر ابن عمر نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ اجازت دیں تو آپ کے لیے نرم و ملائم اور آرام دہ بستر تیار کردیا جائے تو اس موقعے پر آپۖ نے ان سے فرمایا: ہمارا دنیا سے کیا لینا دینا ہے، ہمارا دنیا سے بس اس قدر تعلق ہے جتنا ایک راہی راستے میں آرام کرنے کے لیے کسی درخت کے زیرسایہ قیام کرے اور پھر اپنی راہ لے۔ ہم کو دنیا سے لو نہیں لگانا ہے۔ ہم تو آخرت کے طالب ہیں۔ آخرت دنیا کی سوکن ہے، دونوں ایک ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش