سچ تو یہ ہے کہ ۔۔۔

ملک میں ایک دن عام انتخابات کرانے کا کیس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کے بعد گزشتہ سماعت کے تحریری حکم میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ سیاسی مسائل مذاکرات سے بہتر حل ہوسکتے ہیں امید ہے کہ سیاسی جماعتوں میں بڑھتی ہوئی تقسیم کے خاتمے اور پورے ملک میں ایک ہی تاریخ پر انتخابات کیلئے اتفاق ہوجائے گا۔ تحریری حکم میں سیاسی مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی اب تک کی کوششوں کو قابل ستائش قرار دیا گیا۔ قبل ازیں پی ٹی آئی اور حکومتی کمیٹیوں نے اپنی رپورٹیں جمع کرائیں۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ سیاسی مسائل مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونے چاہئیں اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے یا محکمے کو پسندوناپسند کا تاثر نہیں دینا چاہیے بالخصوص اس صورت میں جب بعض فیصلوں اور سماعتوں کے دوران دیئے گئے ریمارکس کی وجہ سے سیاسی تقسیم گہری ہوئی ہو اور مختلف الخیال حلقوں کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ مشورہ نہیں بلکہ حکم دیا جارہا ہے جیسا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا الیکشن کیس میں ہوا۔ اعلی عدلیہ کے ذمہ داران کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ ملک میں ایسی صورتحال کیوں پیدا ہوئی کہ ایک بڑے طبقے کے نمائندے یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ عدلیہ کا ایک حصہ توہین عدالت کی تلوار سے ڈراکر حکم بجالانے پر مجبور کررہاہے؟ سیاسی تنازعات اور آئینی تشریحات ہر دو کے حوالے سے سنجیدہ رائے یہی ہے کہ ان معاملات کی سماعت کے لئے اولا تو الگ سے وفاقی دستوری عدالت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے بالفرض اگر کسی وجہ سے یہ ممکن نہیں تو پھر سپریم کورٹ میں نئے چیف جسٹس کے حلف اٹھانے کے ساتھ ہی اگلی مدت کے لئے یا طے شدہ تین سے پانچ سال کے عرصہ کے لئے تین سینئر ججوں پر مشتمل دستوری بنچ کے قیام کا اعلان کردیا جائے۔ اس رائے کے حاملین کا کہنا ہے کہ دستوری بنچ کی موجودگی کی صورت میں اولا تو معمول کے مقدمات کی مقررہ انداز میں سماعت جاری رہے گی ثانیا یہ کہ سیاسی و آئینی کیسوں کی سماعت الگ سے قائم بنچ میں ہونے کی وجہ سے ویسے تماشے نہیں لگ پائیں گے جو پچھلے کچھ عرصہ سے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ اسی طرح یہ امر بھی اپنی جگہ غور طلب ہے کہ سیاسی و آئینی مقدمات کی سماعت کے دوران معزز جج صاحبان کو ریمارکس دینے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے یقینا ان کے ریمارکس کیسوں کیتناظر میں ہوتے ہوں گے مگر ان سے مختلف حلقے جو منفی و مثبت تاثر لیتے ہیں اس سے معاشرتی تقسیم کی خلیج مزید گہری ہوتی ہے۔ ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن اس لئے بھی ہونے چاہئیں کہ ماضی میں جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات دو دن کے وقفے سے ہوتے تھے تو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے حق یا اس کا راستہ روکنے کیلئے مختلف ادارے اور محکمے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر اثرانداز ہوکر مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے تھے۔ ماضی قریب میں 1988 کے عام انتخابات اس حوالے سے تلخ حقائق کی صورت میں تاریخ کا حصہ ہیں ان انتخابات سے قبل سول ملٹری بیوروکریسی اور ایجنسیوں کی چھتر چھایہ میں پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لئے بننے والے سیاسی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد کے ان رہنمائوں نے جن کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا، قومی اسمبلی کے انتخابی نتائج میں پیپلزپارٹی کی معمولی سی برتری کو دیکھ کر جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگانے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہیں کی تھی انہی انتخابات میں بعدازاں پنجاب میں آزادانہ حیثیت سے جیتنے والے ارکان قومی و پنجاب اسمبلی کو ڈپٹی کمشنروں، پولیس کے ضلعی سربراہوں اور ایجنسیوں کے ذریعے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل کروایا گیا۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے تلخ تجربات کی روشنی میں ہی فیصلہ کیا گیا کہ آئینی مدت کی تکمیل پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوا کریں گے تاکہ سازشی عناصر اپنا گندا کھیل نہ کھیلنے پائیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی تحلیل کردہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے دو ساتھی ججز کی تجویز پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے جن بنیادی نوعیت کے سوالات کو یکسرنظرانداز کیا ان میں اہم ترین سوال یہ تھا کہ کیا کسی پیشگی معاہدہ پر وزیراعلی بننے والا شخص صوبائی اسمبلی تحلیل کرے گا تو اسمبلی تحلیل کرنے کی یہ سمری آئینی طور پر درست شمار ہوگی؟اس ضمن میں چند دیگر سوالات بھی تھے لیکن بنیادی اہمیت کا سوال یہی تھا جسے نظرانداز کرکے کارروائی آگے بڑھانے سے جو
مسائل پیدا ہوئے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بنیادی سوال کو نظرانداز کرکے جس طرح ازخود نوٹس کیس کو آگے بڑھایا گیا اور فیصلہ صادر کیا گیا اس سے ایک طرف تو ہائیکورٹس کے دائرہ اختیار میں سپریم کورٹ کی بے جا مداخلت کا تاثر ابھرا دوسرایہ کہ اس فیصلے سے سیاسی کشیدگی میں اضافہ تو ہوا ہی خود سپریم کورٹ میں بھی اس حوالے سے تقسیم زبان زد عام ہوئی۔ گو ازخود نوٹس کیس کے فیصلے پر عدم عمل کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں (حکومت اور اپوزیشن) کو مذاکرات کرنے کی ہدایت کی لیکن بہت دیر ہوچکی تھی کیونکہ ازخود نوٹس کیس کے فیصلے سے جو منفی تاثر ابھرا اس سے سیاسی عدم استحکام میں خطرناک اضافہ ہوا۔ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات اور درپیش مسائل پر سنجیدہ رویہ اپناتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے درخواستیں لے کر عدالتوں کا رخ کیوں کرتی ہیں؟ اس کی سادہ سی وجہ نظریہ ضرورت ہے تحت دیئے گئے وہ فیصلے ہوتے ہیں جنہوں نے ماضی میں بگاڑ بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور یہ تاثر کہ عدلیہ بھی پاپولر ازم سے متاثر ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو یہ عرض کرنے کی اہمیت کو دوچند کرتا ہے کہ پاپولرازم سے متاثر ہوکر دیئے گئے فیصلوں سے کبھی سیاسی استحکام آیا نہ ہی عدلیہ کی ساکھ بڑھی بلکہ ہر دو حوالوں سے منفی جذبات بڑھے۔ حالیہ عرصہ میں چند کیسوں کی سماعتوں کے دوران دیئے گئے ریمارکس اور فیصلوں کو اس تاثر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ بہت ضروری ہے کہ ہر کس وناکس اس امر کا جائزہ لے کہ بگاڑ کے بڑھنے میں جو کردار اس کا ہے اس کے ازالے کی صورت کیا ہوگی۔ ہماری دانست میں سیاسی جماعتوں کو اختلافی مسائل پر سیاسی رویہ اپنانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست میں عدم برداشت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے بسا اوقات اس جادو کا اثر کم ہونے پر جب زمینی حقائق کا ادراک ہوتا ہے اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے لیکن اس تاخیر اور بگاڑ میں سے خیر تلاش کرکے تعمیر کے جذبے سے آگے بڑھنے کے لئے کوششیں کرنا سیاستدانوں کا ہی کام ہے۔ سنجیدہ فہم سیاستدان کبھی مایوس ہوتے ہیں نہ مذاکرات کا دروازہ بند کرکے بیٹھ رہتے ہیں۔ اسی بنا پر ہم یہ امید کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں (حکومت اور اپوزیشن) بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انا کے خول سے باہر نکل کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں گی تاکہ سیاسی عدم استحکام میں کمی ہو اور جیسی بھی ہے اس جمہوریت کا سفر آگے بڑھتا رہے۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم