قربانی کی سیاست!!!

سال رواں کے پہلے ماہ کی 24تاریخ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان کو بچانا ہے تو اپنی سیاست کو قربان کرنا ہوگا ‘ پاکستان کوبچانا ہے تو سیاسی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اب یہی وزیر اعظم ایک سیاسی جماعت کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ان سے مذاکرات کے خواہاں نہیں مسلم لیگ (ن) کے اصل قائد نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں ہوسکتے وزیر داخلہ وزیر دفاع اور بعض دیگر رہنما بھی تحریک انصاف کے حوالے سے سخت بیانیہ رکھتے ہیں مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے تو مسلم لیگ نون کو ایک ایسی پٹڑی پر ڈال دیا ہے کہ اب مسلم لیگ جذباتی سیاستدانوں کا ایک مجموعہ بنتی جارہی ہے ان کا بیانیہ سخت لہجہ تیز اور مخالفانہ ہے جہاں کہیں بھی خطاب کا موقع ملے وہ تحریک انصاف کے لئے لتے لئے بغیر سٹیج سے نہیں اترتیں انہوں نے اپنے چچا کے مفاہمت کی سیاست کی حصہ داری بھی ہتھیالی ہے اور مسلم لیگ نون کو ایک جذباتی کلب بنا لیا ہے اب مسلم لیگ نون میں شاہد خاقان عباسی اور ان کے ہم خیال سیاسی زعماء کی ایک نہیں سنی جاتی یہاں تک کہ وزیر اعظم شہباز شریف جیسے رہنما جو ٹکرائو کی پالیسی کے کبھی حامی نہ رہے اب وہ بھی للکارنے پہ آگئے ہیں شاید سیاست کا رخ ہی اب بدل گیا ہے اور ایسا کرنا سیاستدانوں کی مزید مجبوری بن گئی ہے۔ نو مئی سے قبل تحریک انصاف طوفان اور رعدو برق بنی ہوئی تھی جب حالات کے تھپیڑوں نے سبق سکھا دیا اور اپنے بھی پرائے بننے کے یا بنانے کے عمل کا شکار ہوئے تو تحریک انصاف کے قائد پہلے پہل بلکہ ایندم اسٹیبلشمنٹ سے معاملات ٹھیک کرنے کی تگ و دو میں لگے رہے ایوان صدر کے ذریعے بھی پیغام رسانی ہوتی رہی مکمل مایوسی اور سخت سے سخت اقدامات سے جب واسطہ پڑا تو اب کہیں جا کرعمران خان تو یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ میں تو بات چیت کا خواہاں ہوں مگر مجھ سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتا اب وہ ایک طرح سے سیاسی و ذاتی تنہائی پر مجبور ہو چکے ہیں مشکل امر یہ ہے کہ کچھ ساتھ چھوڑ رہے ہیں کچھ کی مجبوریاں ہیں اور کچھ مفادپرست تھے اور ہوں گے جو تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے انتظار میں بیٹھے ہیں اس طرح کے مرغ باد نمائوں نے نہ مسلم لیگ نون کے ساتھ وفا کی نہ عمران خان سے کریں گے ان کی نظریں بس اسمبلی کی نشست اور ایوان کے فلور اور وزارت کی کرسی پر ہوتی ہے اور ہوتے یہ کارندے قسم کے لوگ جس طرف ہانکا چل دیئے مگر ماننے والی بات یہ بہرحال ضرور ہے کہ خواہ یہ پنچھی خود اڑیں یا ہانکے جائیں نشست اپنی جیتنے کی کمال مہارت رکھتے ہیں اب بھی حکومتی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہوں گے جو سیاسی جماعت کا سیاسی طریقہ سے مقابلہ کرنا چاہتے ہوں گے اور ہار جیت کا حوصلہ رکھتے ہوں گے ۔ شہباز شریف کی سیاسی ضروریات ‘ مریم نواز کی جذباتیت اور مولانا فضل الرحمان کی تریاہٹ سب اپنی جگہ لیکن جس طرح وزیر اعظم کا بیان تھا کہ وہ ملک کے لئے سیاست قربان کر دیں گے دیکھا جائے تو مسلم لیگ نون نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اقتدار میں بڑا اور کلیدی حصہ قبول کرکے واقعی ہی اپنی سیاست کو دائو پر لگا دیا ہے عوام کو اس سے کوئی سرکار نہیں ہوتا کہ ملکی معاشی حالات سیاسی صورتحال کس طرح کی ہے عوام بس یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت کس کی ہے اور مہنگائی میں اضافہ کتنا ہوا ہے تحریک انصاف کی حکومت اگر تحریک عدم اعتماد کی نذر نہ ہوتی تو اب تک مہنگائی کی نذر ہوچکی ہوتی اس سے وہ تو بچ گئی مگر اب پی ڈی ایم بالعموم اور مسلم لیگ نون بالخصوص مہنگائی کے باعث عوام کے غصے کی زد میں ہے اس حد تک ملک کے لئے اپنی سیاست کو قربان کرنے سے اتفاق ہے کہ ایک یقینی طور پر ناموافق فضا میں اقتدار طوعاً و کرھاً قبول کی گئی لیکن یہ کافی نہیںبلکہ ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لئے اب سیاسی قربانی کی بھی ضرورت ہے جو سیاسی مذاکرات اور مکالمات کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا اب وزیر اعظم کو اپنے جذباتی ساتھیوں کی سننے کی بجائے ملک و قوم کو سیاسی عدم استحکام کے باعث درپیش صورتحال سے نکالنے کے لئے ضد اور انا کی قربانی دینی ہو گی ضد اور انا کی سیاست کامیاب ہوتی تو عمران خان مقبول سیاستدان ہونے کے باوجود آج معتوبیت کا بری طرح شکار نہ ہو رہے ہوتے مسلم لیگ نون ہی کے سابق میشر خزانہ عمران اسماعیل نے درست کہا تھا کہ ایک باری اگر شکست بھی ہوتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں حالات کس کی جیت اور کس کی شکست کے بنتے ہیں وہ اپنی جگہ اور وقت پر ہی سامنے آئیں گی لیکن ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کنگز پارٹی ہی کامیابی حاصل کرتی ہے اور سرپرست ہر جماعت کو کسی نہ کسی طرح حصہ دار بنا ہی لیتے ہیں یہ گزشتہ ادوار کی بات تھی اب تو انتخابات سیاست اور ہار جیت کا وہ ماحول نہیں اس کے لئے حالات سازگار بنانے کی ضرورت ہے سیاست ایک طرف ملکی معیشت اور ملک کو مشکل مالی حالات سے نکالے بغیرانتخابات ہو بھی جائیں تو کشتی بدستور منجدھار ہی میں رہے گی جسے نکالنے کے لئے عمران خان سے لے کر نواز شریف اور زرداری تک موالانا فضل الرحمان سے لے کر مریم نواز تک سبھی کو سیاسی مکالمے کی طرف آنے کی ضرورت ہے چونکہ وزیر اعظم شہبازشریف ہیں اس لئے سب سے زیادہ ذمہ داری بھی ان کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ انا کی خول توڑ کر باہرنکلے کل جماعتی مشاورتی فورم تشکیل دے ایک تازہ اور وسیع البنیاد میثاق جمہوریت و میثاق معیشت کی جائے اس کے بعد صاف اور شفاف بنیادوں پر انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے اور آنے والی حکومت مشکلات کے باوجود چل سکتی ہے اور اس کے چلنے کی محولہ صورت ہی میں امید ہے مگر سیاسی ہوائیں ایک مقبول لیڈر کو شامل پرواز ہونے سے ہر قیمت پر روکنے کی چل رہی ہیں خود ان کی جانب سے بھی فضائوں میں بلاوجہ کے ارتعاش کی جو غلطی ہو رہی ہے اس سے خود ان کے پرواز کی طاقت اور پروں کی پھڑ پھڑاہٹ کورکاوٹیں درپیش ہیں عمران خان اگر سیاسی فضا میں اونچی اڑان بھرنے کے خواہاں ہیں تو ان کوبھی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہوگی ورنہ آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک کی جو لہر چل نکلی ہے ان کی فضا پر طاری جمود کو توڑنے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں پھر سیاستدان حسب سابق ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور دل والے دلہنیا لے جائیں تو پانچ سال تک ہاتھ ملتے رہنا پڑے گا ریل گاڑی ایک سٹیشن سے چھوٹ جائے تو اگلی سٹیشن پر اسے پکڑنے کے لئے ہوائی جہاز ہی پکڑنا پڑے گا ہوائی جہاز یعنی طیارہ ویسے بھی ہماری سیاست کا اہم کردار چلا آرہا ہے ۔ طیارہ چلے تو اقتدار جہاز کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر منتظر ہوتا ہے عوام کی سیاست کی جائے جمہوری سیاست ہو مفاہمت و مذاکرات اور مکالمہ کی سیاست ہو طیارے کی سیاست نہ ہو تبھی عوام کی حکمرانی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے ورنہ جہازوں کی حکومت توبن سکتی ہے عوامی نہیں۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں