تعطیلات مثبت اور خوشگواربنائیں

گرمیوں کی چھٹیاں ہونے پر والدین کو ایک پریشانی یہ ہوتی ہے کہ دوران تعطیلات بچوں کو کیسے سنبھالا جائے ۔ جن کے پاس سہولیات اور مواقع ہوں وہ تعطیلات گزارنے کہیں نہ کہیں جا سکتے ہیں گائوںاور خاص طور پر ایسے آبائی علاقے جہاںگرمی کم ہوتی ہے اس کا رخ کرنا فطری امر ہے بچے بھی گائوں جا نے پر خوش ہوتے ہیں ان کو اپنے عزیز و اقارب کی پہچان اور اپنے آبائی علاقے سے واقفیت کا موقع ملتا ہے نئے دوست بنتے ہیں اور نئی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں مگر ہر کسی کو یہ سہولت میسرنہیں ہوتی اور نہ ہی ہر کسی کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ چھٹیاں گزارنے کہیں جا سکیں سچ پوچھیں تو اس مہنگائی نے بڑے بڑوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے کچن کے اخراجات پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے کہیں جانا تو عیاشی کے زمرے میں آتا ہے مگر بہرحال بچے تو بچے ہوتے ہیں سکول جاتے ہوئے ان کا کافی وقت سکول میں کٹتا ہے واپسی پر ہوم ورک اور مسجد و مدرسہ اور گھر و گھر کے آس پاس کھیل کود اور آنکھ مچولی کر لی اور رات ہونے پر گھر کی راہ لی مگر اب تعطیلات میں فراغت ہی فراغت ہے بچوں کا وقت نہیں گزرتا چھوٹے چھوٹے گھروں میں بچوں کو سنبھالنا خاص طور پر مشکل ہوتا ہے پھر ہر گھر میں انٹرنیٹ اور اینڈرائیڈ فون و کمپیوٹر بھی دستیاب نہیں ہوتی جہاں ہر چیز یں ہوتی بھی ہیں ان کی الگ قباحتیں ہوتی ہیں ایسے میں بچوں کو سنبھالنا اور ان کی تعطیلات کو مثبت انداز میں ترتیب دے کر کچھ سیکھنے سکھانے کاموقع فراہم کرنے پر توجہ کی خاص ضرورت ہے چھٹیوں کے اوقات کو طلباء اور نوجوانوں کی بڑی تعداد فراغت کے لمحات قرار دے کر ضائع کر دیتی ہے والدین کو بھی اس کا ادراک کم ہی ہوتا ہے اور وہ اس بات پر کم ہی توجہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی کسی طرح سے رہنمائی کریں ۔ میرے خیال میں تو تعطیلات کو درست انداز میں گزارنے کی پوری منصوبہ بندی ہونی چاہئے بچے خواہ شہروں اور قصبات میں ہوں یا گائوں چلے گئے ہوں ان کے وقت کو بہترین انداز میں گزارنے کے لئے باقاعدہ جدول مرتب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وقت کی درست تقسیم ہی تعطیلات کو مفید بنانے کا باعث بن سکتا ہے روزانہ کا ایک جدول بنا کر اس پر عملدرآمد کیا جائے اس ضمن میں بچوں سے زیادہ والدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس میں سنجیدگی کامظاہرہ کریں اور اس میں بچوں کی رہنمائی و مدد کریں۔ بچوں کی ترجیحات اور مشاغل کو سمجھنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے ۔ معاشی سرگرمیوں اور دیگر مصروفیات کی بناء پر والدین اور بچوں کے اوقات آپس میں مربوط نہیں ہو پاتے چھٹیوں میں خاص طور پر اس کا اہتمام تقریباً تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے بدقسمتی سے انٹرنیٹ میں زیادہ دلچسپی کے باعث اب والدین اور بچوں ہر ایک کی اپنی اپنی دنیا ہوگئی ہے اور ایک گھر میں رہ کر بھی ان میں تعامل کا فقدان ہوتا ہے جو والدین اور بچوں میں دوریوں کا باعث بن رہا ہے اس کے باعث والدین بچوں کی سرگرمیوں کا صحیح طریقے سے ادراک بھی نہیں کر پاتے اور نہ ہی ان کے مسائل سننے اور ان کے خیالات جان کر ان کی مناسب رہنمائی پر توجہ ہوتی ہے والدین جب اولاد کی سرگرمیوں اور شرارتوں و غلطیوں سے لاعلم ہوں تو ان کی مناسب تربیت و رہنمائی
ہوہی نہیں سکتی خاص طور پر منفی مشاغل اور سرگرمیوں سے والدین آگاہ ہی نہ ہوں تو پھر ان کی اصلاح پر توجہ کیسے ہو گی والدین بچوں کو قریب نہ رکھیں ان کی سنیں گے نہیں تو پھر ان کے خیالات سے آگاہی نہیں ہو گی ایسے میں بچہ خدانخواستہ منفی مشاغل میں دلچسپی لے اور ان کو صحبت بھی بری ملے تو پھر پانی سر سے اونچا ہونے پر ہی والدین کو خبر ہوتی ہے مگراب کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت والی صورتحال ہوتی ہے لہٰذا والدین کو بہت محتاط ہوشیار اور چوکنا ہونا چاہئے بچوں پر محتاط طریقے سے کڑی نظر ضرور رکھی جائے مگر ان پر بلاوجہ شک بھی نہیں کرنا چاہئے بچوں پر توجہ اور ان کے مشاغل سے واقفیت سے ہی ان سے دوستانہ تعلق بنایا جا سکتا ہے ان کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کے لئے اس سے موزوں طریقہ شاید اور کچھ نہیں ۔ جائزہ لیا جائے تو ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ والدین اور بچوں کے درمیان تعامل کا نہ ہونا اور ابلاغی فاصلہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے بچے اپنے ذہنی اور فکری الجھنوں کے حوالے سے اپنا مدعا بیان کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور اپنے دل کی بات والدین کو نہ کہہ سکنے کی بناء پر غلط راستوں کا انتخاب کرتے ہیں یہ سب کچھ اتنا انجانے میں ہوتا ہے کہ دور نکل کر جب احساس ہو تو دوبارہ اپنے آپ کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے اور نہ ہی والدین کے لئے یہ آسان ہے کہ وہ ان کو واپس درست راہ پر با آسانی لگا سکیں۔تعطیلات کا بہترین مصرف یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے معمولات درست کرکے ان کو بہتر راستے پر گامزن کریں یوں تو قرآن مجید فرقان حمید کو باترجمہ سمجھنا ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے ضروری ہے مگر بچوں کو اس کی تلاوت اور ترجمہ ومفہوم سکھانے اور سمجھانے کاباقاعدہ اہتمام ہونا چاہئے ایسا ہر گھرانے کو اپنے حالات و سہولیات اور وسائل کے مطابق کرنی چاہئے چونکہ آج کل سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے اور بچوں کی اس میں دلچسپی بھی ہوتی ہے اور قرآن پر غور اور تدبر کی عوت بھی دی گئی ہے سورہ آل عمران کی دو آیتوں میں اس طرف خاص طور پر دعوت اور رہنمائی دی گئی ہے کہ ”بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں یقینا نشانیاں ہیں عقل والوں کے لئے وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا کھڑے ہو کراور بیٹھ کر اور اپنے پہلوئوں کے بل اور غور و فکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں(اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب نہیں پیدا کیا تونے یہ (سب کچھ) بیکار ‘ تو پاک ہے ( ہر عیب سے )پس بچا ہمیں آگ کے عذاب سے ” اس آیت میں پنہاں پیغام کو سمجھا اور سمجھایا جائے تو سائنس و ٹیکنالوجی میں بچوں کی دلچسپی میں اضافہ ہو گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رجوع الی ا للہ کی توفیق مل سکتی ہے ‘ بچوں کو تعطیلات میں کتب بینی کی طرف راغب کیجئے مطالعے کا ماحول بنائیں بچوں کو وزرش اور کھیل کود کا بھی موقع دیجئے اور ان کی رہنمائی کیجئے ان کی دلچسپی کے امور و مشاغل میں ان کے مدد گار بنیں بچوں کو اہل علم کی صحبت اختیار کرنے کے مواقع فراہم کریں ان کوگھریلو امور اور چھوٹے موٹے کاموں کی تربیت دیں ان سے سماجی کام کروائیں ان کی درست سمت میں درست انداز میں رہنمائی کریں اور خود بھی ان کے ساتھ شامل ہوں تاکہ وہ مثبت چیزیں سیکھ سکیں اور یہ ان کی عادت بن جائے اس طرح سے تعطیلات مفید ہوں گی اور بچے بھی بوریت و بیزاری اور چڑ چڑا پن کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو