بجٹ میں تبدیلی کے امکانات

پاکستان کو سال 2026 تک عالمی اداروں کو 77 ارب ڈالر کا قرضہ ادا کرنا ہے۔ بشرط یہ کہ پاکستان کوئی قلیل مدتی قرض نہ لے۔ آئندہ مالی سال پاکستان کو 25 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔اس کے لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو لازمی طور پر آئی ایم ایف سے یا تو موجودہ یا پھر نئے پروگرام پر بات چیت کرنا ہوگی۔ بجٹ میں بھی آئی ایم ایف سے 2.4 ارب ڈالر ملنے کی امید ظاہر کی گئی ہے مگر دوسری جانب وزیر خزانہ نے موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے تقریبا انکار ہی کردیا ہے۔آئی ایم ایف سے معاملت اگر سیاسی یا کوئی اور بین ا لاقوامی منصوبہ ہوتا تو اسس ے صرف نظر کرنے کی گنجائش تھی مگر یہاں معاملہ معاشی حالات اور بجٹ کا ہے جسے ٹالا نہیں جاسکتا اسی تناظر میں کہا جارہا ہے کہ یا تو عبوری حکومت صدارتی حکم نامے کے ذریعے یا پھر نومنتخت حکومت ضمنی فنانس بل کے ذریعے اس بجٹ میں بڑی تبدیلیاں کرے گی چاہے وہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت ہی کیوں نہ ہو۔ محصولات پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ مجموعی وفاقی محصولات 12 ہزار 163 ارب روپے ہونگے، جس میں ایف بی آر9ہزار200ارب روپے جمع کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک سکڑتی ہوئی معیشت میں ٹیکس وصولی کا ہدف کس طرح 30 فیصد بڑھایا جاسکتا ہے۔ جبکہ وہ کاروبار جہاں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہوتی ہے ان کے خلاف تو کوئی اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔توقع کی جارہی تھی کہ حکومت ریٹیل اور جائیداد کی خرید و فروخت کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات کرے گی۔ مگر ایسے اقدامات ابھی تک نظر نہیں آئے۔ اس طرح سے حکومت نے ملک میں جائیداد کی سٹے بازی کی روک تھام کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔حکومت نے خود کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ ووٹر اور سپورٹر کو بھی تحفظ دیا ہے۔یہ سوالات باعث تشویش اور باعث تعجب ہیں حکومت اگر آئی ایم ایف کا کوئی متبادل سامنے لاتی اور جس پلان بی کا عندیہ دیا جا رہا ہے اسے راز رکھنے کی بجائے اپنی معاشی حکمت عملی واضح کرتی تو اطمینان کی گنجائش تھی بصورت دیگر اس بجٹ کے حوالے سے ماہرین جس تشویش کا شکار ہیں اور جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کے ڈانڈے سیاست اور انتخابات سے ملتے دکھائی دے رہے ہیں اس طرح کے فیصلے کا ایک تلخ تجربہ ڈیڑھ دو سال قبل ہو چکا ہے اگر وہی غلطی موجودہ حکومت بھی دہرا رہی ہے تو یہ قوم کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال