انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائی

وزیراعظم شہباز شریف نے یونان کشتی حادثے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی سمگلروں کی کارروائیاں بروقت کیوں نہ روکی گئیں اور متاثرہ لوگوں کا جن اضلاع سے تعلق ہے انتظامیہ نے ملوث سمگلروں اور ایجنٹوں کی کارروائیوں کا بروقت نوٹس کیونکر نہ لیا؟ وزیراعظم نے حادثہ کی تحقیقاتی کمیٹی کو کارروائی مکمل کرکے جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذمہ داروں کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے جہاں تک انسانی سمگلنگ کا تعلق ہے یہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کئی صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے جب لوگوں کو ان کے ممالک سے اغواء کرکے دوسرے دیسوں میں بطور غلام فروخت کیا جاتا تھا تاہم اب وہ صورتحال نہیں ہے بلکہ لوگ اپنے حالات سے تنگ آکر دوسرے ممالک خصوصاً یورپ میں قسمت آزمائی کیلئے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ ان لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کر ان کو اپنی جمع پونجی سے محروم کر دیتے ہیں اور پھر بیچ سمندر’ یا پھر کنٹینروں میں بند کرکے مختلف ممالک پہنچانے کے دعوے توکرتے ہیں لیکن یہ لوگ راستے ہی میں مختلف حادثات کا شکار ہو کر یاتو موت کی تاریک وادیوں میں اتر جاتے ہیں یا پھر سرحدی محافظوں کے ہتھے چڑھ کر قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں’ اس حوالے سے انسانی سمگلروں کے بین الاقوامی ریکٹ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے مغربی ممالک میں سرگرم انسانی سمگلروں کے ساتھ رابطے میں رہ کر کروڑوں کا بزنس کرتے ہیں’ تاہم جہاں تک پاکستان میں یہ مکروہ دھندہ کرنے والوں کا تعلق ہے ماضی میں بھی ان کے خلاف کریک ڈائون ہوتا رہا ہے مگر یہ سب وقتی طور پر ہی ہوتا رہا اور اکثر بڑے مجرم یا تو بھاگنے میں کامیاب ہوتے رہے یا پھر معمولی قید و بند کے بعد دوبارہ”نئے ولولے” سے سرگرم ہو کر اس دھندے کو بڑھاتے ہیں’ اب بھی اگرچہ کئی لوگ قانون کے شکنجے میں آچکے ہیں لیکن کی ایک بھاگ جانے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس دھندے کوتحفظ دینے والوں میں مبینہ طور پر ایف آئی اے کے اہم کردار شامل ہیں’ اس لئے اس حادثے کی تحقیقات کے لئے اصولی طور پر جوڈیشل کمیٹی قائم کی جانی چاہئے تھی، اس لئے کہ قانونی کمیٹی کے علاوہ جوبھی کمیٹی تحقیقات کرے گی اس پر متعلقہ اداروں کے افراد اثر انداز ہو سکتے ہیں اور اصل مجرموں کے ”ساتھیوں”کی بچت ہوسکتی ہے’ وزیراعظم نے وزیر داخلہ کو اس حوالے سے قانون سازی کی جو ہدایت کی ہے اس پر بھی سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد ضروری ہے کیونکہ ماضی کی ایک حکومت میں ایسا ہی ایک شخص اہم عہدے پر فائز رہا ہے جس کے والد اور چچا کے ماضی میں لیبیا کو پاکستانیوں کی سمگلنگ کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں اور وہ ملک سے فرار ہو کر لندن میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ‘اس لئے اس سانحے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش