مسکرائے آپ پاکستان میں ہیں

ہر سال جون کے مہینے پاکستان بھر کے لوگ گرمی اور مہنگائی دونوں کا رونا روتے ہی رہتے ہیں۔ امسال بھی مہنگائی اور گرمی سے تڑپتے جلتے ہماری نظریں جمی تھی کہ ابھی وطن عزیز کابجٹ آئے گا اور کم از کم مہنگائی کا زور تو ٹوٹ ہی جائے گا مگرہمارے وزیر خزانہ نے بجٹ میںمہنگائی کی کمی کی تو کوئی نوید نہ دی بلکہ مہنگائی کا رونا تو روتے رہیں گے سارے پاکستان کے بیشتر علاقے تاریخی گرمی کی لپیٹ میںہیں۔گرمی کی شدت سے جہاں پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں لوگ بے ہوش ہو رہے ہیں وہاں پر طرح طرح کی بیماریوں میں بھی مبتلاء ہورہے ہیں ان میں تپش، لو لگنا، آنکھوں اور پیٹ کی بیماریاں نمایاں ہیںاس قیامت خیز گرمی میں ملک بھر میںدرجنوں لوگ ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ اس گرمی کے بارے میں بزرگوں نے کہا کہ” سورج سوا نیزے پر ہے” مراد تھی کہ گرمی اتنی زیادہ ہے کہ لگتا ہے کہ سورج ہمارے بہت قریب آگیا ہے اور اس کی تمازت سے گرمی برداشت سے باہر ہے۔
لیکن گرمی اگر اکیلی ہو تو جیسے تیسے برداشت ہو ہی جائے گی مگر ساتھ لوڈشیڈنگ کی مصیبت بھی ہوتوکیاکہنے اور اس پر طرہ یہ کہ مہنگائی بھی آگئی ہے ، اب اگر سورج سوا نیزے پر ہے تو لگتا ہے کہ مہنگائی آدھے نیزے پر ہے ۔ عوام اگر گرمی کی شدت اور لوڈشیڈنگ سے نہ مرے تو مہنگائی یہاں پرسونے پہ سہاگے کا کام کرے گی اور رہی سہی کسر نکال دیگی ۔ ہمارے وطن عزیز میں بھی ابھی گرمی کی شدت سے ہم لوگ ”انجوائے ” کررہے تھے کہ اسی گرما گرمی میں بجٹ بھی آگیا جس سے گرمی کی شدت میں زیادتی آگئی، قوم مہنگائی سے تو تنگ تھی ہی اب اس گرم موسم میں ”خوب انجوائے” کریں گے۔ گرانفروشوں نے بجٹ سے پہلے ملک میں مہنگائی پھیلائی ، ان کو کھلی چھٹی دی گئی کہ اپنی مرضی سے مہنگائی پھیلائیں’ قیمتیںآسمان سے باتیں کررہی ہیں، حکومت نے اپنے چہیتوں کو کہا کہ اپنی مرضی سے اشیاء صرف کی قیمتیں بڑھائیں کوئی نہیں پوچھے گا اور عوام کے شور شرابے سے پہلے ہی ہم موجودہ بجٹ میںعوام کو دال چاول کے چکر میں یوں ڈالیں گے کہ وہ یہ بھول جائیں گے کہ یہ مہنگائی آئی کہاں سے تھی لوگ صرف ایک وقت کی روٹی کے حصول پر غور کریں گے اور چونکہ یہ بجٹ اعداد کا جادوئی چکر ہے جو کہ بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات کو بڑی دیر سے سمجھ میں آتا ہے عام آدمی تو عام سی بات نہیں سمجھ سکتا اوپر سے بجٹ ہمارے فارن کوالیفائیڈ ( ولیت پاس ) وزیروں کا بنایاہوا ہے تو اس کی سمجھ خود حکومتی ارکان پارلیمنٹ کو بھی بجٹ منظور ہوجانے کے کافی دیر بعد آتی ہے۔
اب کیا کیا جائے کہ گرمی ہے زیادہ ، اس موسم کے باعث جہاں لوگوں کو گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے ، شدید گرمی کے باعث لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں بازار ویران ہوگئے ہیں سڑکوں پر ٹریفک بھی کم ہے ،ماہرین اب اس بات کا اندازہ لگارہے ہیں کہ کاروبار زندگی کیونکر معطل ہو رہے ہیں آیا گرمی کے ہاتھوں یا پھر لوگوں کی قوت خرید ہی جواب دے گئی ہے ،ہر بار کی جیسے اس حکومت نے بھی ساری مہنگائی کا قصور پچھلی حکومت پر ڈال دیا ہے کہ انہوں نے ایسے اقدامات کیے کہ ہمیں برداشت کرنے پڑ رہے ہیں ، ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر بات پچھلی حکومت پر ڈال دیتی ہے اور اپوزیشن ہر بات حکومت پر ڈال دیتے ہیں۔ حسب سابق ہماری حکومت نے ملک میں لوڈشیڈنگ کا مجرم بھی عوام کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں اپنا حصہ ڈالیں، ان کا کہنا ہے کہ بجلی کا بحران ہے اور یہ لوڈشیڈنگ اصل میں لوڈشیڈنگ نہیں لوڈشیئرنگ ہے اور ہم یہ بوجھ سب پر یکساں ڈالنا چاہتے ہیں لیکن یہ علیحدہ بات ہے کہ اب اس کاروبار میں عوام کے شیئر کچھ زیادہ ہو رہے ہیں اور حکومتی شیئر روز بروز کم ہوتا جارہا ہے ، عوام تو ابھی تک اس بات سے قاصر ہیں کہ اندازہ لگا سکیں کہ وہ سب سے زیادہ کس بات سے تکلیف میں ہیں ملک میں گرمی زیادہ ہے، لوڈشیڈنگ یا مہنگائی، جیسے ہی اس بات کا اندازہ ہوگا یا اس مرض کا ادراک ہوگا تشخیص ہوگی۔
مرض کی تشخیص ہونے کے بعد علاج پر بھی خرچ آئے گا اور یوں مہنگی ادویات خریدنے کی استطاعت نہ ہونے کے باعث مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواء کی کے مصداق سر چکرا جائے گا۔ ایسے مواقع کے لئے پرہیز علاج سے بہتر والی بات کرنی ہوگی اور اس کے لئے ماہرین کہتے ہیں کہ لافنگ تھیراپی کا استعمال کیا جائے تو بہت بہترنتائج آئیں گے۔ جی ہاں ایسے موقع پر خوب قہقہے لگا کرہنسنے سے کافی فرق پڑتاہے۔ ماہرین نے اسے علاج بالمزاج یا ہومر تھراپی کا نام دیا ہے جس میں باقائدہ طور پر شریک افراد کو ہنسنے پر مجبور کیا جاتاہے نو ممالک میں کی گئی٢٩ تحقیقات اور سروے سے معلوم ہوا کہ لافٹر تھیراپی سے ڈیپریشن ، انزائیٹی اور یاست دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین نے زور دے کر کہا ہے کہ قہقہوں سے علاج کو روائتی نفسیاتی معالجے جیسی ہی افادیت حاصل ہوسکتی ہے یہاں تک کہ کئی افراد نے اسے بہت ہی مفید قرار دیا ہے۔ یہ مٹاسٹڈیز ”برین اینڈ بے ہیویئر” میں شائع ہوئی ہے۔ جس میں مختلف ممالک کے ٢٩٦٤ (دوہزار نو سو چونسٹھ) افراد نے شرکت کی تھی کئی شرکاء کو باقائدہ طور پر ایسی کلاسوں میں تربیت دی گئی کہ وہ زور سے ہنسیں اور لبوں پر مسکراہٹ بکھیریں اس کے لئے کئی طریقے ان افراد پر استعمال کئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مطالعے میں ان لوگوں کو استعمال کیا گیا ہے کہ جو مشکل حالات سے گزررہے تھے۔ ان میں سرطان کے مریض، سرجری سے گزرنے والے بچے ، ڈیپریشن کے عام مریض، دماغی عارضہ کے افراد، ڈائلیسس کرانے والے مریض اور گھریلوخواتین اور طالبات بھی شامل تھے۔ تمام شرکاء نے بتایا کہ ہنسنے کے عمل سے ان میں ڈیپریشن اور مایوسی دور ہوئی ہے اور اکثریت اس طریقے سے معترف دکھائی دیتی ہے۔
دیکھا جائے تو یہ طریقہ نہ صرف آزمودہ ہے بلکہ اس پر خرچ بالکل نہیں لہٰذا میرا تو ساری پاکستانی قوم سے التماس ہے کہ وہ بھی اس طریقہ علاج کو اپنائیں اور اپنی ڈیپریشن ، انزائیٹی اور یاست دور کرنے کے لئے مدد حاصل کریں ۔ پاکستان کے سیاست دان تو مہنگائی کا کچھ کرنے سے قاصر ہیں تو پھر عوام کو ہی کوئی دوسرا علاج کرناہوگا۔پہلے پہل تو یہ سوچتے تھے کہ پاکستان سے باہر جاکر کمائیں گے اور اپنے خانداان والوں کو اچھا مستقبل دے سکیں گے، لیکن آج کل کے حالات میں پاکستان سے باہر جائیں گے تو غریب کی کشتی بیچ سمندر میںہی ڈوب جائے گی اور اگر پاکستان میں رہیں گے تو ہمیشہ مسکراتے رہنے کی تھیراپی کرواکر ہی جیا جاسکتاہے۔ ہنسنے سے سٹریس کے ہارمونز کم ہوتے ہیں اور قوت مدافعت بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ ہنسنے سے انسانی بدن کے اچھا محسوس کرنے والے ہارمون بڑھتے ہیں اور عارضی طور پر درد کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے یا درد کا احساس کم ہوجاتاہے۔ ہماری قوم کے اتنے دردہیں اور ان دردوں کا علاج کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے تو پھر قوم کو اس واحد بغیر خرچ کے علاج پر پوری توجہ دینی ہوگی۔ ہمارے مخیر حضرات کو چاہئے کہ وہ ہنسنے ہنسانے کے لئے باقائدہ سے اہتمام کریں تاکہ درد کے مارے بے چارے غریب پاکستانی اس سے مستفید ہوسکیں۔ اب ہمیں چاہئے کہ بجلی گیس اور دیگر بلوں پر بھی یہ تحریر لکھی ہونی چاہئے کہ ”مسکرائیے آپ پاکستان میں ہیں”۔

مزید پڑھیں:  کالی حوریں