سویڈن میں توہین ِ قرآن کا ایک اور واقعہ

سویڈن میں ایک مسجد کے باہر ایک بار پھر قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کا دلدوز واقعہ رونما ہوا ہے جہاں ایک سفید فام انتہا پسند نے مغلظات دہراتے ہوئے قرآن مجید کو دیا سلائی دکھائی ۔اس واقعے سے کروڑوں مسلمانوں کے دل ایک بار پھر زخمی ہو کر رہ گئے ہیں۔دنیا بھر سے اس واقعے کی مذمت ہو رہی ہے مگر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس واقعے کی مذمت کا حق ادا کیا ہے انہوںنے قرآن مجید کو سینے سے لگا کر اپنی تصویر بنوائی ہے اور توہین قرآن جیسے واقعات اور ذہنوں کی کھل کر مذمت کی ہے ۔ایک غیر مسلم ملک کے سربراہ کا یہ اقدام حد درجہ لائق تحسین ہے جنہوں نے مسلمانوں کے جذبات کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ ان سے عملی یکجہتی کا بھی اظہار کیانیز انہوں نے اپنے ملک میں اس طرح کی کسی گستاخانہ حرکت کا سدباب کرنے کا مناسب طریقہ بھی اپنایا جو دنیا کے لئے پیغام ہے جس کی تقلید کی جائے تو دنیا میں اس طرح کے واقعات کی نوبت ہی نہ آئے۔اسلامی ملکوں میں بھی اس واقعے پر کچا پکا سا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے شاید مسلمان دنیا اب ان واقعات کی عادی ہوتی جا رہی ہے اور یہی اس طرح کے مجنونانہ واقعات کا مقصد ہوتا ہے ۔مسلمانوں کو ان کی قابل احترام ہستیوں ،علامتوں اور نظریات کے بارے میں حساس نہ رہنے دیا جائے ۔اس حساسیت کو عام بحث میں بدل دیا جائے ۔مغرب کی ایک وسیع وعریض دنیا آج بھی اسی مخمصے کی دلدل میں پھنس کر رہ گئی ہے جو مسلمانوں کے عروج تو درکنا ر معمولی سے استحکام میں اپنا زوال اور ذلت تلاش کرتی ہے ۔یہ صلیبی دنیا کے عروج کی یادوں میں گم اور اس عروج کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہے ۔ مغرب میں اس وقت دو سوچیں پائی جاتی ہیں ۔یہ سوچ ابھی مضبوط ہے کہ مسلمان مغرب کے اچھے اور کارمد شہری ہیں انہیں اس معاشرے میںآنے اور ضم ہونے کے مواقع ملتے رہنا چاہئے ۔دوسری سوچ صلیبی جنگوں میں پھنسی ہوئی ہے ۔جس کے خیال میں مسلمانوں کا وجوداس کرہ ٔ ارض سے مٹاڈالنا چاہئے ۔بوسنیا اور کوسوو کے بحرانوں میں انہی دو سوچوں کے درمیان لڑائی چلتی رہی مگر دیر سے ہی سہی صلح جویانہ سوچ ہی غالب آگئی۔ سفید فام قوم پرستی ایک عالمی لہر بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔فلسطین اور کشمیر پر قیامتیں گزر رہی ہیں مگر مغرب کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی مگر یوکرین کی غم میں آج مغرب سراپا ماتم ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد جس طرح دنیا میں اسلامو فوبیا کا بیج بویا گیا سویڈن میں توہین قرآن ،فرانس میں گستاخانہ خاکوں اور چند برس قبل نیوزی لینڈ کی مسجد پر ہونے والے حملے کے واقعات اسی کا برگ وبار ہے۔اسلام کی ترقی اور پھیلائو اس سے پہلے بھی بہت سوں کو کھٹک رہا تھا مگر نائن الیون کے واقعات کے بعد تو وہ مائنڈ سیٹ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں نکل آیا۔امریکی صد ر جارج بش نے نائن الیون کے واقعے پر اپنے بے ساختہ تبصرے میں کہا تھا کہ دشمن نے ہم پر کروسیڈز مسلط کر دی ہیں گویا کہ ایک اور صلیبی جنگ چھیڑ دی ہے ۔صلیبی جنگ مسلمانوں اور عیسائی حکمرانوں کے درمیان طویل اور تاریخی رزم آرائیوں کا نام ہے جس میں کبھی مسلمان فاتح رہے تو کبھی عیسائی ظفریاب ہوئے ۔ جارج بش کے اس ایک جملے پر مبنی تشبیہ نے ساری حقیقت عیاں کر کے رکھ دی تھی۔نائن الیون کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ نے زہر آلود ٹاک شوز سجائے ،مضامین اور کالم شائع کئے اور کارٹون بنائے ،کتابیں شائع ہوئیں اور ان سب میں مسلمانوں کو فساد فی الارض کا باعث طبقہ بنا کر پیش کیا گیا ۔اسلام اور مسلمانوں کو ہر زاویے سے دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کیا گیا۔جب بھی مغرب میں کوئی واردات ہوئی تو میڈیا نے اسلامک ٹیررسٹ کا ڈھول جم کر پیٹا ۔جب بھی کسی سفید فام یا غیر مسلم نے کوئی واردات کی تو اس کے لئے مجرم اور قاتل کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔ایسا کرتے ہوئے مجرم کے مذہب کا ذکر صفائی سے گول کیا جاتا رہا ۔مسلمان کی دہشت گردی میں مذہب کے عنصر کو اُبھارا جاتا تو عیسائی یا یہودی کی دہشت گردی کی صورت میں مذہب کا ذکر غائب ہوجاتا۔یہ ایک دلخراش تضاد اور سوچی سمجھی پالیسی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو مجموعی طور پر اور ان کی تہذیب کو کلیتاََ دفاعی پوزیشن اور ایک کٹہرے میں کھڑا کئے رکھنا تھا ۔مسلمانوں کو خوف ،نفرت اور دہشت کی علامت بنا کر پیش کر نا تھا ۔کسی مسلمان کے انفرادی فعل کا اس کے مذہب کے ساتھ دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا تھا ۔کہیں سماجی حالات کا دخل ہوتا ہے تو کہیں ردعمل کی کوئی اوروجہ تہہ میں موجود ہوتی مگر ایسے ہر واقعے کے مرتکب شخص کی مذہبی شناخت کو سب سے اوپر رکھاجاتا جیسے کہ یہ کسی فرد کی بجائے پوری تہذیب اور مذہب کا فعل ہو۔مغرب کی سوچی سمجھی سکیم کے باوجود مغربی معاشروں میں اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا ۔اسلام کے فروغ اور اشاعت کو روکنا تو ممکن نہ ہوا مگر اس سے اسلام دشمن مائنڈ سیٹ جسے اسلاموفوبیاکہا جاتا ہے کو تقویت ملتی چلی گئی اور آئے روزمختلف واقعات کی صورت میں اسلاموفوبیا کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔حیرت کا مقام ہے کہ برسوں سے اسلامک ٹیررسٹ کی جگالی کرنے والا مغربی میڈیا اس مائنڈ سیٹ کے زیر اثر ہونے والے پرتشدد واقعات میں” کرسچین ٹیررسٹ” کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا ۔یہی تضادات اور دہرے میعارات دنیا میں خرابی کی جڑ ہیں۔ سویڈن میں توہین قرآن کا مرتکب ہو یانیوزی لینڈ کا قاتل یا فرانس کا کارٹونسٹ ان میں کوئی پاگل نہیں یہ سب فکری اعتبار سے ایک مکمل نظریاتی انسان لوگ ہیں ۔ایک سفید فام عیسائی کے طور پران کا نظریاتی شعور بھی بہت مضبوط ہے۔یہ اپنا پوردماغ اور فکر بندوق دیا سلائی یا پنسل پرکھول کر رکھ دیتے ہیں ۔۔وہ اپنے ہدف میں یکسو ہوتے ہیں اور اپنی سوچ وفکر سے قریب تر لوگوں کے لئے بہادری اور چاہا جانے والا کردار بننے کی خواہش رکھتے ہیں ۔کچے ذہنوں کے لئے ایسے کرداروں کو رومنٹسائز کرنے کو بہت کچھ ہوتا ہے ۔یہ لہر چل پڑی تو مسلمان دنیا میں عراق ،افغانستان اور شام سجانے والوں کو گھرو ں میں ایسے مناظر دیکھنا پڑیں گے ۔یوں حضرت اقبال کی پیش گوئی سچ ثابت ہو سکتی ہے ،”تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی”گویا کہ جس تہذیب کو کئی مضبوط مخالفین برباد نہ کرسکا اسے اپنے ہی انتہا پسند نفرت انگیز رویوں اور حرکتوں سے تباہ کرنے پر تُل گئے ہیں۔نفرت ایک ایسا گھن ہے جو اندر ہی اندر معاشروں کو چاٹتا اور کھوکھلا کرتا چلا جاتا ہے ۔نفرت کی بنیاد پر تادیر سماج زندہ نہیں رہتے ۔تہذیبوں کو زندہ رکھنے میں وسیع الظرفی اور وسیع النظری اور تنوع کا بہت اہم کردار ادا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم