جنابِ وزیراعظم ! آپ الزام کی سنگینی سے آگاہ ہیں ؟

وزیراعظم شہباز شریف نے سوشل میڈیا پر آرمی چیف پر قاتلانہ حملے کی مہم چلانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی دوسروں کے ذریعے آرمی چیف کو قاتلانہ حملے کی دھمکیاں دینے کی مہم بری طرح بے نقاب ہوچکی ہے۔ یہاں تک تو بات درست ہے کہ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس کے بعض اکائونٹس پر جہاں آرمی چیف اور ان کے بعض ساتھیوں کے خلاف نفرت بھری مہم کو آزادی کا راستہ کے عنوان سے چلایا جارہا ہے وہیں ان اکائونٹس سے ہی عمران خان کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرکے یہ کہا جارہا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں نے پاکستان کو تباہ کرنے کے اپنے منصوبوں میں رکاوٹ سمجھ کر منتخب وزیراعظم کو غیرقانونی طریقہ سے ہٹاکر اس کی حکومت ختم کی مگر وزیراعظم ان اکائونٹس کے پروپیگنڈے سے یکسر مختلف بات کہہ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر دوسروں کے ذریعے آرمی چیف کو قاتلانہ حملے کی دھمکیاں دلوانے کا منصوبہ بری طرح بے نقاب ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعتا ایسا ہی ہے تو اس ضمن میں اب تک کیا کارروائی ہوئی۔ یہ سوال پوچھا جانا اس لئے ضروری ہے کہ الزام سنگین نوعیت کا ہے اس کی سنگینی اور حساسیت دونوں سے وزیراعظم بخوبی واقف ہوں گے۔ اب انہیں پہلی فرصت میں تمام ثبوت عدلیہ کے سامنے بلاتاخیر رکھنا ہوں گے تاکہ اگر ان کا موقف درست ہے تو عمران خان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور اگر اس کامقصد محض توجہ حاصل کرنا ہے تو بھی نہ صرف تحقیقات بلکہ عدالتی عمل ہر دوصورتوں میں انتہائی ضروری ہیں۔ پاکستانی سیاست میں مخالفین پر سنگین نوعیت کے الزامات کا چلن ہمیشہ سے عام رہا ہے اسی سبب فوری طور پر وزیراعظم کے الزام کی جس طرح تائید بہت مشکل ہے اسی طرح اسے نظرانداز کرنا بھی مشکل ہے۔ اس سے قبل عمران خان خود پر ہوئے مبینہ قاتلانہ حملے کے بعد سے اب تک جس طرح الزامات کی چاند ماری میں مصروف رہے وہ بھی دلچسپ ہے اس ضمن میں اب تک کا آخری بیان یہ ہے کہ مجھے ہیلی کاپٹر سے اترتے ہوئے راکٹ لانچر سے قتل کرنے کی سازش کی گئی۔ پہلے وہ ایک حساس ادارے کے ذمہ دار افسران کے ساتھ وزیراعظم، وزیر داخلہ وغیرہ پر اپنے قتل کی سازش کرنے کا الزام لگاچکے ایک مرحلہ پر انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری پر الزام لگایا کہ انہوں نے میرے قتل کے لئے ایک دہشت گرد گروپ کو رقم ادا کردی ہے۔ یہ اور اس طرح کے بدلتے الزامات سے انہوں نے اپنا تماشا بنوایا لیکن ان کا خیال یہی ہے کہ چونکہ ان کے پیروکار ان کی ہر بات کو الہامی سچائی کے طور پر قبول کرلیتے ہیں اور گاہے بات بدل لینے پر وہ ان سے بھی بڑھ کر صفائی پیش کررہے ہوتے ہیں اس لئے جو منہ میں آئے کہہ دینا چاہیے۔ ایک رائے یہ ہے کہ وزیراعظم نے جس سازش کا ذکر کیا ہے وہ اصل میں جوابی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بظاہر اس رائے کو درست اس لئے نہیں سمجھا جاسکتا کہ جمہوری نظام کے سب سے بڑے منصب پر فائز شخصیت ایسی بات کی توقع نہیں سکتی جسے کل کسی فورم پر ثابت نہ کیا جاسکتا ہو۔ البتہ اگر ان کے موقف کو بیرون ملک مقیم چند یوٹیوبرز کے وی لاگز اور مختلف سائٹس پر اظہار کردہ خیالات کے تناظر میں دیکھا جائے، تو وزیراعظم کی بات حقیقت کے قریب لگتی ہے۔ بیرون ملک مقیم ان یوٹیوبرز میں کچھ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد فورا ملک چھوڑ گئے وہ اس امر کے دعویدار ہیں کہ اگر ہم ملک نہ چھوڑتے تو خفیہ ایجنسیاں ہمیں قتل کراسکتی تھیں ان یوٹیوبرز کے ماضی کا تعارف ایجنسیوں کے غیراعلانیہ ترجمان کا رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ان کے سوشل میڈیا اکائونٹس اور یوٹیوب چینلز پر عسکری قیادت کے لئے زہریلا پروپیگنڈہ جاری ہے۔ خاموش مجاہدین سے روایات کرنے والے یہ پروپیگنڈے باز لندن میں مقیم عمران خان کی ایک سابق اہلیہ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اصولی طور پر کسی ثبوت کے بغیر یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر عسکری و سیاسی قیادت خصوصا عسکری قیادت کے خلاف جاری پروپیگنڈہ اور مسلح افواج سے حکومت کے خلاف کی جانے والی اپیلوں کا تعلق کسی ایسی لابی کی حکمت عملی سے ہے جو پاکستان میں موجود سیاسی عدم استحکام اور معاشی مسائل کا فائدہ اٹھاکر خانہ جنگی کی راہ ہموار کررہی ہے لیکن جس منظم انداز میں پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور جس طرح مغرب اور امریکہ میں ایک خاص فہم رکھنے والی سیاسی و صحافتی لابی اس پروپیگنڈے کی ہمنوائی میں مصروف ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم کا یہ کہنا کہ آرمی چیف کو قتل کی دھمکیاں دینے کا منصوبہ بے نقاب ہوچکا ہے معمولی بات نہیں کیونکہ وزیراعظم نے اس منصوبے میں عمران خان کو بھی ایک کردار قرار دیا ہے۔ مکرر اس سوال کو سامنے رکھنا ہوگاکہ منصوبہ بے نقاب کرنے والوں کے پاس صرف سوشل میڈیا اکائونٹس سے کئے جانے والے پروپیگنڈہ کے سکرین شارٹ ہیں یا کوئی ٹھوس ثبوت بھی ہے؟ وزیراعظم کی یہ بات بہرطور درست ہے کہ دھونس تشدد اور نفرت کی سیاست کو پروان چڑھانے والے کبھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے مگر اس ضمن میں سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے اس موقف کو بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ وزیراعظم نے اپنی حکومت کی ناکامیوں، عوام پر ٹوٹے عذابوں اور مختلف مقدمات میں من پسند عدالتوں سے اپنے خاندان کے لئے حاصل کئے گئے بریت کے فیصلوں سے لوگوں کی توجہ بٹانے کے لئے آرمی چیف کو قتل کی دھمکیاں دینے کے منصوبے کے بے نقاب ہونے کا شوشہ چھوڑا ہے۔ بہرطور معاملہ جو بھی رہا ہو اس سے اس کی سنگینی میں کمی کی نہیں آجاتی۔ الزام ایک حقیقت ہے یا لوگوں کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی تو ہونا ہی چاہئے۔ حکومت کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں تو بیرون ملک بیٹھے سازشی عناصر اور اندرون ملک موجود ان کے ساتھیوں کو کسی تاخیر کے بغیر انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے تمام تر وسائل اور ذرائع بروئے کار لائے۔ ہماری دانست میں حکومت کو ایک قدم آگے بڑھکر ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنا چاہیے یہ کمیشن کم سے کم وقت میں الزامات کی جانچ پڑتال کرکے ان کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ دے اور ہر دو صورتوں میں معاملات کو آگے بڑھائے۔ اس مرحلہ پر مختلف الخیال حلقوں کی یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ وزیراعظم کا یہ الزام آئندہ عام انتخابات کے لئے طے شدہ اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں انتخابات تو ہوں گے لیکن تحریک انصاف کے بغیر نیز یہ کہ حکومت سال بھر سے درجنوں مقدمات بنانے کے باوجود چونکہ عمران خان کے خلاف کسی بھی طرح کی کامیابی حاصل نہیں کرسکی اس لئے اب آرمی چیف کو قتل کی دھمکیاں دینے والے منصوبے کا پنڈورا باکس کھولا گیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آزادانہ و شفاف تحقیقات کے بغیر جتنے منہ اتنی ہی باتیں ہوتی رہیں گی اس لئے حکومت کو تحقیقاتی عمل کے آغاز میں تاخیر نہیں برتنی چاہیے۔

مزید پڑھیں:  ''دوحہ طرز مذاکرات'' سیاسی بحران کا حل؟