وہی ہم ہیں ‘ ہمارے مسئلے بھی

اگرچہ رواداری اور تحمل اور برداشت وقتی عوامل نہیں بلکہ مستقل عوامل ہیں لیکن محرم الحرام کی آمد کے موقع پر ہمارے ہاں ان الفاظ کا بکثرت استعمال ہونے لگتا ہے رواداری ہر شعبے اور میدان کی ضرورت ہے سیاسی رواداری ‘ مذہبی رواداری معاشرتی رواداری غرض ہر جگہ اس کا مظاہرہ احسن ہے رواداری کے مختلف مفہوم اور معانی جگہ اور وقت کی مناسبت سے اخذ کئے جا سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کے عقائد اور اعمال یا ان کا رویہ و طرز زندگی ہمارے نزدیک درست نہیں ان کو ہم برداشت کریں ان کے جذبات و احساسات نظریات اور طرز زندگی پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کے لئے رنج دہ ہو اور وہ بھی جوابی طور پر سخت جواب دینے پر مجبور ہوں یا پھر سخت ناگواری کا اظہار کریں یا ان کو ناگوار گزرے رواداری اور برداشت اس امر کا بھی متقاضی ہے کہ ایسے لوگوں کو تبدیل کرنے کے لئے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے اس قسم کے تحمل کا مظاہرہ نہ صرف مستحسن امر ہوگا بلکہ مختلف الخیال جماعتوں اور معاشرتی امن کو برقرار رکھنے کے لئے بھی اس کی ضرورت مسلمہ ہے ۔ تحمل و برداشت کا مظاہرہ اور لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف مستحسن فعل ہے بلکہ معاشرے میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے بھی اس کی ضرورت مسلمہ ہے جو معاشرے میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے بھی ضروری ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دوسروں سے اس قدر متاثر ہوا جائے کہ انہی کے رنگ میں رنگ جائیں جیسا کہ ایسا کرنے کا رواج ہے اور اسے جیسا دیس ویسا بھیس سمجھ لینے کا جو وتیرہ اختیار کیا جاتا ہے وہ ہر گز مناسب نہیں بلکہ رواداری و تحمل اور احسن طریقے کے ساتھ مناسب الفاظ میں اظہار خیال اور ذہن سازی کی سعی ہونی چاہئے اگر ایسا ممکن نہ ہو تو جھوٹ کا سہارا لینے کی بجائے سکوت اختیار کیا جائے البتہ یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ برائی کو دل میں برا جاننا ایمان کاکمزور اور آخری درجہ ہے صحیح رواداری وہی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو دی ہے یہی وہ رواداری ہے جو اختیار ہو سکتا ہے مذہبی رواداری کا مظاہرہ احسن طریقے سے اپنا پیغام دینا یا پھر خاموش رہنا ہے ۔ ہمارے معاشرے کی مشکل ہی یہ بن گئی ہے کہ ہر سطح پر تحمل و برداشت کی اشد ضرورت ہے ان دنوں ملک میں سیاسی عدم برداشت اور حکومتی و ریاستی طور پر روا رکھے جانے والا سلوک خاص طور پر پریشان کن ہے اولاً اس کا مذہبی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو احرام باندھے اور قربانی کرنے والے وزیر داخلہ سے اس بات کی توقع نہیں ہونی چاہئے کہ ان کی وزارت کے تحت محض سیاسی بنیادوں پر خواتین کو گھروں بلکہ ان کے خوابگاہوں سے گھسیٹ کر گرفتار کیا جائے ان کے ا نتقامی کارروائیوں کے ڈر سے اکیلی خواتین کو جگہ جگہ پناہ ڈھونڈنی پڑے اور ان کا سکون غارت ہو قربانی اصل میں انا کی قربانی ہوتی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے انا کی قربانی نہیں دے سکتے کیا قربانی کا درس یہ نہیں کہ اپنے من کو قربان کرنا ہی قربانی کی روح ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں سینوں میں قرآن چہرے پر سنت رسولۖ اور دین و مذہب کے لئے کٹ مرنے کے عزائم کے باوجود انا ‘ ضد اور ہٹ دھرمی کوچھوڑنے پر کوئی بھی آمادہ نہیں جو لوگ مرد و خواتین کسی واقعے میں براہ راست ملوث ہوں ان کے خلاف منصفانہ کارروائی ضرور ہو لیکن ان کے اہل خانہ ان کے شوہر ‘ بہن بھائی ‘ بیگمات ‘ عزیز واقارب کو آخر کس بات کی سزا دی جا رہی ہے جب حکومتی اور ریاستی سطح پر اس طرح کا جارحانہ و غیر منصفانہ رویہ اپنا یا جائے گا تو معاشرے میں رواداری کی کیونکر توقع کی جا سکتی ہے یہ تو معاشرے اور سیاست دونوں کو پریشر ککر بنانے کے مترادف ہے کہ ایک خاص مرحلے پر اسے پھٹنا ہی ہوتا ہے مجھے تو خدشہ اس بات کا ہے کہ دیوار سے لگانے کا عمل وہاں پہنچا دیا گیا ہے جہاں ایم کیو ایم کوپہنچایاگیا اس کا نتیجہ کیا نکلا نفرت ‘ تعصب ‘ ٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشیں ملنا شروع ہو گئیں اور پھر کتنی مشکلوں سے اس جن کو بوتل میں بند کیاگیاہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سختی و تشدد کا نتیجہ کبھی بھی رواداری اور تحمل کی صورت میں سامنے نہیں آسکتا بلکہ اس کا جواب زیادہ جارحانہ اور طویل صورت میں سامنے آنا مشاہدہ اور تجربہ ہے ۔ سیاسی رواداری کا لفظ ہی اب بھلا دیا گیا ہے خود ہی سوچیں اس ملک کے عوام پر کیا کوئی ایسی بات مسلط کی جاسکتی ہے جو عوام کی دانست اور سوچ کے برعکس اور متصادم ہو ملک میں انتخابات بھی ہوں گے اور شکست و کامیابی کا بھی فیصلہ ہو گا مگر اس مرحلے میں جس غیر جانبداری اور رواداری کے اصولوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی اگر اس سے احتراز کیاگیا تو اس کے نتیجے میں عدم برداشت کی ایک اور لہر اور ردعمل کا سامنا ہوگا کم از کم اس کی غلطی نہ کی جائے اور ملک میں کسی نئے عدم برداشت کے دور کا آغاز ہونے کا سبب بننے سے گریز کیا جائے ۔
سب ایک جیسے نہیں ‘ قاتل ہو یا کہ منصف
کسی کا ذکر کسی سے جدا کہاں سے کروں
بہرحال ایک سیاسی میدان ہی کیا یہ ہمارے معمولات میں شامل ہے کہ مزاج کے برخلاف عمل دیکھ کر تحمل کا درس یاد نہیں رہتا فوری اور سخت ردعمل ہمارا معاشرتی وتیرہ بن گیا ہے جس سے منبر ومحراب سے لے کر ایوان اور معاشرہ کوئی بھی مبرا اور خالی نہیں۔ ان تمام عوامل اور حالات میں روداری اختیار کرنا بہت سے مسائل سے بچنے اور بہت سارے مسائل کا حل ثابت ہو سکتا ہے غور کیا جائے تو ہر شعبہ حیات میں ہر سطح پر اور ہر مرحلے میں رواداری تحمل و برداشت کی سخت ضرورت ہے کیونکہ یہ زیریں سطح سے لے کر معاشرے کی اعلیٰ ترین اکائی تک امن و محبت کے لئے اہم ہے ۔ ہماری زندگی میں رواداری کی بہت زیادہ اہمیت ہے لیکن بدقسمتی سے ان دنوں ہمیں شاذ ونادر ہی ایسا شخص ملتا ہے جو دوسروں کو برداشت کرتا ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے میں رواداری کو ایک خوبی سمجھ کر اسے فروغ دیا جائے اور اپنے بچوں کی تربیت میں اس وصف کو لانے کا خاص خیال رکھا جائے۔رواداری اختیار کرنے کے مجموعی فوائد اور فضائل اپنی جگہ رواداری کا مظاہرہ سب سے پہلے انسان کی اپنی شخصیت اور اطمینان کی ضرورت ہے رواداری اختیار کرنے سے انسان کی خود سے عاید رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ اندرونی سکون اور طمانیت سے لطف اندوز ہونے کا بھر پور موقع ملتا ہے رواداری اختیار کرنے سے تنائو کم اور راحت زیادہ ملتی ہے اگر ہمیں گھر دفتر معاشرہ ملک اور دنیا میں امن چاہئے تو ہمیں اس نظریے کو فروغ دینا ہوگا ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ رواداری کا اظہار محبت سے زیادہ آسان اور موثر ہے ۔ محرم الحرام کی آمد کے پیش نظر میں اس امر پر زیادہ زور دینا چاہوں گی کہ اس موقع پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں علمائے کرام سے لے کر میڈیا اور حکومتی اداروں تک سبھی کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خدانخواستہ شہر کاامن متاثر نہ ہواس موقع پر انتظامیہ کو اس امر کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات کے نام پر شہریوں کو محصور بنا کر ناگواریت پیدا کرنے سے گریز کریں معاشرے کے امن کے لئے رواداری ضروری ہے جس سے حکومت ریاستی ادارے اور انتظامیہ بھی مبرا نہیں ہر سطح پر اس کے قیام و خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی