میثاق ِمعیشت بذریعہ آئی ایم ایف

یوں لگتا ہے کہ ملک کی موجودہ بحرانی کیفیت اور سیاسی کشیدگی میں آئی ایم ایف محض ایک ایسی حکومت کے ساتھ اتفاق کرنا کافی نہیں سمجھتا جس کی عوامی سطح پر پزیرائی نہ ہونے کے برابر ہو اور جس کے اقتدار کی سانسیں بھی آخر ی لمحات میں داخل ہورہی ہوں ۔اس لئے آئی ایم ایف نے سیاسی استحکام کے ملفوف مشورے دئیے لیکن حکومت نے ان مشوروں پر کان نہیں دھر ا اور یوں آئی ایم ایف کو آگے بڑھ کر ”میثاق معیشت ”کے اس تصور کو عملی جامہ پہنانا پڑا جس کی تجویز شہباز شریف وزیر اعظم بننے سے پہلے پیش کرتے چلے آئے تھے ۔وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے میثاق معیشت کو بھول بھال کر سیاسی حریف جماعت کو کچلنے کا کام سنبھال لیا ۔ڈیڑھ سال سے پی ڈی ایم کی حکومت نے دل سوزی اورعرق ریزی سے صر ف دو ہی کام کئے ہیں اول یہ کہ حکمران اتحاد میں شامل راہنمائوں پر قائم بدعنوانی کے مقدمات کا خاتمہ دوئم یہ کہ سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان کودبانا ۔اس سے آدھی توجہ معیشت پر دی گئی ہوتی تو آج رضا ربانی کو آئی ایم ایف کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہہ نہ دینا پڑتی ۔آئی ایم ایف کے وفد کی پیپلزپارٹی کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات خبر نہ بن سکی کیونکہ پیپلزپارٹی اس وقت حکومت کا حصہ ہے اور اس کے وزیر تجارت سید نوید قمرآئی ایم ایف سے ملاقات کرنے والوں میں خود بھی شامل تھے ۔پیپلزپارٹی سے ملاقات کا مطلب حکومت سے ہی ملاقات ہے مگر اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف آمدہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو ایک کیمپ میں کھڑا نہیں دیکھ رہا ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آئی ایم ایف کو حکومت میں شریک ایک جماعت سے بات چیت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اسحاق ڈار سے ہونے والے مذاکرات کا مطلب حکومت سے مذاکرات تھا اور حکومت کا مطلب مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے غالب حصے کی حکومت
ہے۔آئی ایم ایف نے ان مذاکرات کو پوری حکومتی سیاسی قیادت کا فیصلہ نہ جان کر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قربتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔ آئی ایم ایف کی اصل ملاقات وہ تھی جو لاہور کے زمان پارک میں ہوئی اور اس نے ملکی کی سیاست کے موجودہ سیاسی منظراور بیانیوںکی جنگ کا میدان ہی بدل ڈالا۔جس طرح آئی ایم ایف کے وفد کا پیپلزپارٹی کے وفد کے ساتھ ملاقات میں خبرنہیں تھی اسی طرح اس وفد کی زمان پارک کی یاتر اایک بہت بڑی خبر ہے ۔حکومت پی ٹی آئی کو سیاسی رنگ سے آؤٹ کرنے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے اور بلکہ اپنے تئیں پارٹی کا تیا پانچہ کر چکی ہے ۔پارٹی کے ہزاروں افراد جیلوں میں ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں ۔پارٹی کے سربراہ پر قائم مقدمات کی تعداد دوسو کے قریب پہنچ چکی ہے اور ان کی صبحیں اور شامیں عدالتوں کے کٹہروں میں اپنی صفائیاں دینے میں گزر تی جا رہی ہیں ۔میڈیا پر ان کا نام لینا ممنوع ہے اور آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات میں ایک ٹی وی چینل نے جس طرح عمران خان کی تصویر کو دھندلا کیا اس نے سنسر شپ کو کہانی کو ایک نیا رنگ وآہنگ دیا اور جدید زرائع ابلاغ کے دور میں یہ سنسر شپ کی تاریخ کا ایک نیا دور اور انداز ہے ۔حد تو یہ کہ ٹی وی چینل پر کرکٹ کی ڈاکیو منٹریز میں بھی ایک سبز سا ہیولا ہاتھوں میں ورلڈ کپ اُٹھائے میدان میں فاتحانہ چال چلتا ہوا نظر آتا ہے ۔خود فریبی سی خود فریبی ہے کہ ان حیلوں بہانوں سے تاریخ کا دھار موڑا جا سکتا ہے۔سیاسی عداوت میں اپنی تاریخ کو کھرچنا کس قدر عجیب رویہ ہے۔حکومت نے پی ٹی آئی کوایک سیاسی جماعت کی بجائے شرپسندوں کا ٹولہ ،ماسٹر مائنڈ اور فتنہ سمیت کئی موٹی موٹی اصطلاحات اور القابات کی زد میں رکھا ہے۔عمران خان کو سیاست سے باہر کی دنیا کا آدمی قرار دے کر سیاسی میدان سے نکال باہر کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ایسے میں آئی ایم ایف کا وفد اہتمام کے ساتھ زمان پارک کی یاترا کرتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عالمی اقتصادی ادارہ سرکاری بیانیے کو قبول نہیں کررہا اور حکومت کی تمام کوششوں کے باجود زمان پارک جانے سے رکتانہیں ۔جس سے یہ مترشح ہے کہ عالمی اقتصادی ادارہ جو اس وقت پاکستان کے ساتھ معاملات طے کر رہا ہے اور آگے بھی معاملات طے کر نے پر مجبور ہے پی ٹی آئی کے معاملے میں حکومت کے بیانیوں کو قابل اعتنا ء سمجھنے کی بجائے پاکستان کے زمینی حقائق پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور پاکستان کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومت پوری قوت کے باوجود عمران خان کو سیاسی منظر سے غائب نہیں کر سکی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں ان کی مقبولیت بلند سے بلند تر ہو رہی ہے ۔عمران خان کی پارٹی کو تو مینج کر لیا ہے مگر ان کے ووٹر کو کیسے مینج کیا جائے گا ؟آئی ایم ایف جس پس منظر کا حامل ادارہ ہے اس میں تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسی شخصیت سے ملاقات کرکے اسے جوازیت عطا کرے جسے وہ دہشت گردی شرپسند اور کسی تشدد کا ماسٹر مائنڈ سمجھتا ہو۔گویا کہ حکومت کا موقف عالمی سطح پر من وعن تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ پاکستانی میڈیا سے غائب ہونے کے بعد عمران خان نے اپنا مقدمہ عالمی میڈیا میں لڑنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ اپنا رنگ دکھانے لگا ہے اور عالمی سطح پر انہیں اسٹیبلشمنٹ کی پراکسی کی بجائے اب سول سپر میسی کے نئے علمبردار کے طور پر دیکھنے کا رجحان پیدا ہونے لگا ہے ۔ایسے میں عمران خان نے آئی ایم ایف کے وفد کو حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے تمام گلے شکوئوں کے باوجود معاہدے کی حمایت کا مشروط اعلان کیا ۔اس ضمانت کے بعد اب آئی ایم ایف سے قرض کی قسط ملنا یقینی ہوگیا ہے۔یوں اسحاق ڈار کی تجویز یعنی میثاق معیشت کو عملی جامہ پہنایا گیا مگر یہ کام حکومت کی بجائے آئی ایم ایف نے براہ راست کر لیا جس پر سینیٹر رضا ربانی بے ساختہ بول پڑے کہ آئی ایم ایف کی ملاقاتوں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی واپسی ہوئی ہے جو نامورلوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتی تھی کہ وہ کمپنی کے فیصلوں کی حمایت کریں ۔انہوںنے اسے پاکستان کی سیاسی خود مختاری کے زوال پزیر ہونے سے تعبیر کیا ۔رضا ربانی اگر اس کا تاریخی جائزہ لیتے تو اچھا تھا کہ ملک کی سیاسی خودمختاری کے لڑھکائو کا عمل اسی وقت شروع ہوا تھا جب پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرض لے کر اس سے عیاشیوں کا راستہ اپنایا تھا ۔پاکستان میں آئی ایم ایف کا قرض دینے سے پہلے سیاسی جماعتوں سے ضمانتیں حاصل کرنے کی مثال پہلے موجود نہیں البتہ چیمبر زآف کامرس مزدور یونینوں سمیت معاشرے کے دوسرے طبقات سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں جو آئی ایم ایف کی شرائط سے کسی نہ کسی حدتک براہ راست متاثر ہوتے ہیں ۔حکومت نے سیاسی اور معاشی استحکام کے قیام کا موقع ضائع کردیا او رچارو ناچار یہ کام آئی ایم ایف نے خود سنبھال لیا اور اس پر حکومتی شخصیات کا چیں بہ جبیں ہونا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی یادیں تازہ کرنا اب وقت گزرنے کے بعد یاد آنے والا مُکا ہیں۔
نہ تھا اگر تو شریک ِ محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
میری عادت نہیں رکھ لوں کسی کی خاطر مۂ شبانہ

مزید پڑھیں:  درست سمت سفر