تطہیری مہم کی ضرورت

محکمہ انسداد دہشت گردی پشاور نے دعوی کیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں مذہبی اسکالرز اور اقلیتی گروپوں کے ارکان کے خلاف حالیہ ہدف بنا کر کیے گئے حملوں کے پیچھے عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ (داعش)کا ہاتھ ہے۔صوبائی دارالحکومت میں اسپیشل پیٹرولنگ اسکواڈ ابابیل فورس کے ساتھ ہونے والے مقابلے کے بعد محکمہ انسداد دہشتگردی نے دو دہشت گردوں کوہلاک کردیا دونوں عسکریت پسندوں کا تعلق افغان شہریوں پر مشتمل نیٹ ورک سے تھا جو افغانستان کے علاقے پل چرخی میں قید رہے تھے۔حکام نے بتایا کہ اس نیٹ ورک کے تقریباً 60ارکان افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد جیل سے فرار ہو کر مبینہ طور پر پاکستان میں داخل ہوئے۔تاہم انہوں نے کہا کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے عسکریت پسند سرگرم اور متحرک ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کے ارکان کے خلاف ٹارگٹڈ حملے شروع ہوئے۔مارچ سے اب تک9افراد کو ٹارگٹ بنایا گیا، نشانہ بنائے گئے افراد میں سکھ، عیسائی اور مسلمان علماء شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سائنسی طریقے اپنائے گئے، کڑی سے کڑی جوڑنے کا پیٹرن اپنایا گیا، فرانزک شواہد سے پتا چلتا ہے کہ ان تمام حملوں میں ایک ہی پستول استعمال کیا گیا تھا۔افغان باشندوں کے دہشت گردی اور بھتہ خوری کے واقعات میں ملوث ہونے کاعمل نیا نہیں ہر بار جب بھی پولیس کو کامیابی ملتی ہے تو یہی عقدہ کھلتا ہے سٹریٹ کرائمز اور پرس و موبائل چھیننے والی وارداتوں میں بھی افغان شہریوںکی بڑی تعداد ملوث ہونے کا خیال یکسر غلط نہیں لیکن بہرحلااسکایہ مطلب ہر گزنہیں کہ صوبے میں موجود سارے افغان مہاجرین کو مشکوک گردان کر سب کوایک ہی لاٹھی سے ہانکاجائے البتہ ان پر نظررکھنا اس لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ جرائم کے ڈانڈے انہی سے ملتے ہیں ایسے میںاگرافغان مہاجرین اپنی صفوں میں موجود جرائم پیشہ اور دہشت گردی پرآمادہ عناصر کی پشت پناہی کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کاوتیرہ اختیار کریں تو یہ جانبین کے حق میں بہتر ہوگا بہرحال مثالی صورتحال کی توقع کبھی بھی پوری نہیں ہوتی بنا بریں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صوبائی دارالحکومت اور مضافات میں صورتحال کے پیش نظر شناخت اور تصدیق کے عمل پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ مشکوک قسم کے عناصر کی بالعموم نشاندہی ہوسکے بھتہ خوری کے واقعات اور ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات اور چھان بین کا عمل شہر کے تمام علاقوں تک پھیلا دیا جائے کرایہ داری معاہدوں این او سی اور شناختی دستاویزات کا ایک جامع عمل شروع کرنا اس ضمن میں مدد گار ہوسکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم