منظم مہم ہی واحد حل ہے

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں جعلی ادویات مقامی عدالتوں کے ذریعے ختم نہیں ہوتیں تو پھر ان کے خاتمے کے لئے آرمی ایکٹ لاگو کرنا چاہیے تاکہ ملک میں کسان کی محنت ضائع نہ ہو۔ اسلام آباد میں گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت غذائی تحفظ پر قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے جس میں کسان شبانہ روز محنت کرتے ہیں اور پاکستان میں کروڑوں لوگوں کو غذا فراہم کرتے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ میرے قائد نواز شریف نے 1997 سے لے کر 1999 تک پنجاب میں جو ذمہ داریاں سونپی تھیں اپنی بہترین ٹیم کے ساتھ ہم نے صوبے سے جعلی ادویات کا مکمل خاتمہ کردیا تھا، کسان اگر کھاد بھی ڈالے، پانی بھی دے اور دن رات محنت کرے اور جعلی ادویات کے ہاتھوں مارا جائے تو یہ پاکستان کے لئے بہت بڑا دھچکہ ہے۔وزیر اعظم ایک جانب اپنے وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے کے دور میں کامیابیوں کی بات کرتے ہیں اسی سانس میں آرمی ایکٹ کی بھی بات کرنا ابہام کا باعث ہے یہ عناصر صرف زرعی شعبے ہی میں سرگرم نہیں بلکہ متعدد شعبوں میں پوری طرح سرگرم ہیں ان کے خلاف ٹھوس بنیادوں پرکارروائی نہ ہونا ان کے پنپنے کا باعث بن رہا ہے بہرحال وزیرازعظم شہبازشریف کابیان اس بے بسی کاا ظہار ہے جو حکومتوں کا شیوہ بنتا جارہا ہے کہ وہ قوانین اور حکومتی مشینری کوبروئے کار لا کر بھی کسی غیر قانونی اور مضر اقدام کی روک تھام میں کامیاب نہیں ہوتیں اعلیٰ ترین سطح پر بجائے اس کے کہ انتظامیہ کوفوری طور پر سخت اورہنگامی اقدامات کے تحت اس طرح کے شیاء کی خریدو فروخت و تیاری کے مقامات کے خلاف پورے ملک میں یکبارگی کے ساتھ سخت اقدامات کے ذریعے ان کاخاتمہ کرنے کے اس کام میں بھی عسکری ادارے اور قوانین کا سہارا لینے کا ارادہ ظاہر کیا جارہا ہے ایک جانب ہم عسکری اداروں کوان کی خالص پیشہ وارانہ امور پر توجہ کے خواہاں ہیں اور دوسری جانب بجلی چوری سے لے کر ہر مشکل وقت میں انہی کی خدمات اور اقدامات کو کافی سمجھتے ہیں اپنے ملک کے دفاعی اداروں اور اس حوالے سے خاص قوانین کاسہارا لینے میں کوئی برائی نہیں لیکن ایساخاص قسم کے حالات ہی میں ہونا چاہئے اوراس کی گنجائش بھی خاص حالات ہی کے لئے رکھی گئی ہے بہترہوگا کہ حکومت ہر قسم کی ملاوٹ کی اشیاء کی تیاری و ترسیل کے مراکز سے لے کر اس سے وابستہ کاروبار و روزگار کے تمام مواقع کو مسدود اور ختم کرنے کی ذمہ داری نبھائے اور نگرانی کامسلسل عمل رکھ کر اس کی گنجائش ہی نہ رہنے دی جائے کہ پھر کوئی اس طرف متوجہ ہی نہ ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم