بلاوجہ کی ا نگشت نمائی

افغان طالبان کے سینئر رہنما اور دوحہ میں سیاسی آفس کے سربراہ سہیل شاہین نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں موجود ہے۔ سہیل شاہین نے اس سوال پر کہ پاکستان کا الزام ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کو روکنے میں سنجیدہ نہیں ہے، کے جواب میں کہا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں نہیں ہے اور ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔اس سوال پر کہ دوحہ معاہدے میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے کیا یہ کمٹمنٹ ہے یا صرف مغرب کے لیے زبانی جمع خرچ؟ اس پر طالبان رہنما نے کہا کہ یہ کمٹمنٹ ہے اور اس پر کھڑے ہیں۔ ہر ایک جانتا ہے کہ یہ ہماری سرکاری پالیسی ہے اور ہم دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتے۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں میل دور کسی ڈیسک کے پیچھے بیٹھ کر افغانستان میں دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپوں کے بارے میں لکھنے والے کیا ہمیں دکھا سکتے ہیں کہ یہ کیمپ کہاں ہیں؟۔طالبان رہنما کی جانب سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیاگیا ہے وہ پوری طرح حقیقت پرمبنی نہیں یہ درست ہے کہ ٹی ٹی پی کے بکھرے ہوئے چند عناصر قبائلی اضلاع اور دور دراز کے علاقوں میں چھپے ہوئے ہو سکتے ہیں لیکن وہ اپنی شیرازہ بندی کی پوزیشن میںنہیں اور نہ ہی وہ بار بار جگہ بدلے بغیر کسی علاقے میں سرگرم ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھارہی واقعات پیش آتے ہیں لیکن پہلے کی طرح ٹی ٹی پی کی قبائلی اضلاع کے کسی چھوٹے سے چھوٹے علاقے پر بھی اثر و نفوذ نہیں اس طرح کی صورتحال کے باوجود ٹی ٹی پی کی بقاء کا جب سوال اٹھتا ہے تو فطری طور پر اس کی افغانستان میں موجود گی کا سوال اٹھتا ہے اور یہ ڈیسک کے پیچھے بیٹھ کر لکھنے والوں کا الزام نہیں بلکہ حساس اداروں کی مصدقہ اطلاعات اورعالمی طور پر اختیار کردہ موقف ہے کہ افغانستان میں اب بھی امن کے لئے خطرات پیدا کرنے والوں کے ٹھکانے موجود ہیں اورافغانستان اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے وعدے کی پوری طرح پابند ی نہیں کر رہا ہے ماضی کی حلیف افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے روابط اور ذہنی ہم آہنگی ناممکن نہیں اور اسی کا ٹی ٹی پی فائدہ اٹھا رہی ہے محتاط طرز عمل اختیار کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ ان عناصر کے طالبان حکومت سے روابط سے تو انکارممکن ہے لیکن وسطی اور ذیلی سطح پر روابط سے صرف نظر ممکن نہیں اگر افغان حکومت کو اس سے یکسر انکار ہے تو پھر کیا وہ غیر جانبدارمبصرین کو مشکوک علاقوں کا دورہ کرکے اطمینان کی اجازت دیں گے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ الزامات کاوقت نہیں بلکہ دونوں ہمسایہ ممالک کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ اور استحکام کی راہ پوری طرح ہموار ہو ابھی صوبائی دارالحکومت پشاور میں گزشتہ روز ہی مارے گئے دو دہشت گردوں کا افغان شہری ہونا ہی شکوک و شبہات کاباعث اور افغان حکام کے دعوئوں کی عملی نفی ہے جہاں تک ڈیورنڈ لائن کے ایک فرضی لکیر اور سرحد ہونے کاتعلق ہے افغان حکمرانوں کو ہر دور میں اس حوالے سے تحفظات کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان حد فاضل ہے جسے تسلیم کیا جائے نہیں اختلاف اس کا احترام کرکے ہی تنازعات سے بچا جا سکتا ہے ۔ بہتر ہو گا کہ افغان حکام اس طرح کے بیانات اور خیالات کے اظہار سے اجتناب برتیں جوغلط فہمیوں اور عدم اعتماد کا باعث بنیں افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ قابل توجہ امر ہے ۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق اس سال2023کی پہلی ششماہی میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جب کہ گزشتہ سال2022کی اسی مدت کے مقابلے میں151حملے ہوئے تھے۔293افراد ہلاک اور487زخمی ہوئے، رواں سال اب تک271حملے ہو چکے ہیں۔ جس میں 389ہلاک اور656زخمی ہوئے۔ خودکش حملوں کی تعداد5سے بڑھ کر13ہو گئی، مرنے والوں کی تعداد77سے بڑھ کر142 اور زخمیوں کی تعداد225سے بڑھ کر309ہو گئی۔ مشکل امر یہ ہے کہ ان حالات کے باوجودافغان طالبان پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے ہیںوہ ٹی ٹی پی کو دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے کے بجائے ان کی افغانستان کو محفوظ پناہ گاہ بنا دیاہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کا ہر دو جانب سے حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی بجائے باہم تعاون کے ساتھ خطے میں قیام امن کی کوششوں کو وسعت دیں اور اعتماد کی فضا پیدا کرکے آگے بڑھیں دونوں ممالک کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے جس سے احتراز ہر دو ممالک کے لئے مشکلات کا باعث ہوگا غلط فہمیوں کے باعث بیانات کی جگہ اعتماد اور تعاون کی راہ اختیار کی جائے تو صورتحال میں بہتری اور اصلاح ممکن ہے۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم