کسی کا تیل نکل آیا توکسی کا تیل نکل گیا

افغانستان کے خوفناک پرپیچ او ر بے تاثر پہاڑوں نے آخرکا ر وہ خزانے اُگلنا شروع کردئیے ہیں جن کا ہونا ہی اس ملک کی بدقسمتی بن کر رہ گیا تھا ۔جن پر نظریں جمائے ہوئے طاقتوں کے ٹائی ٹینک جوش جنوں میں آگے بڑھتے اور اس دیوہیکل کوہستان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجایا کرتے تھے ۔افغانستان میں طالبان حکومت نے تیل کے وسیع ذخائر دریافت کرنے کے بعد اس کی نکاسی کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیاہے ۔طالبان کے وزیر حکومت نے اس منصوبے کے افتتاح کے بعد اعلان کیا کہ ان کنوئوں سے روزانہ ایک سوٹن تیل نکالا جا ئے گا جس سے طالبان کی حکومت کو کروڑوں روپے کی آمدنی ہوگی۔طالبان حکومت نے چینی حکومت کے ساتھ معاہدے میں یہ طے کیا ہے کہ تیل کی پچہتر فیصد آمدنی افغانستان اور پچیس فیصد پر چین کا حق ہوگا ۔اس کے دوسرے ہی روز طالبان حکمرانوں میں بلا کا اعتماد دیکھنے کو نظر آیا ۔طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک انٹرویو میں دوٹوک انداز میں پاکستان کو پیغام دیا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میںموجود نہیں بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کام کرر ہی ہے اس لئے ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی ہماری نہیں اسلام آباد کی ذمہ داری ہے ۔ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ اپنی سرزمین کو کسی عسکریت کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں اور وہ ہم کر رہے ہیں ۔ پاکستان کے اندر شرپسندوں کو ختم کرنا پاکستان کی اپنی ذمہ داری ہے ۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ایک تنازعہ ڈیورنڈ لائن کا بھی چل رہا ہے جسے بعد میں دیکھا جائے گا ۔یوں طالبان جو ٹی ٹی پی کے خلاف اگر مگر کے ساتھ کاروائی کی یقین دہانیاں کر ارہے تھے نہ صرف یہ کہ اچانک اس کام سے پیچھے ہٹ گئے بلکہ انہوں نے پاکستان کو پیغام دیا کہ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ ختم نہ سمجھیں طالبان تاریخ کا یہ بوجھ پٹخ نہیں ڈالیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے دفاعی ماہرین نے پاکستان کا دفاع پاکستان سے باہر کا نعرہ لگا کر افغانستان میں جہادی سرگرمیوں کی سرپرستی شروع کی تھی تو ان کی نظریں ڈیورنڈ لائن کے تنازعے پر ہی تھیں کہ اس ملک میں ایسی پاکستان دوست قیادت اُبھرے جو اس مسئلے کو شد ومد سے نہیں اُٹھائے ۔جنرل حمید گل سمیت بہت سے ماہرین نے کئی بار مجھے انٹرویو میں یہ بات بتائی ہے۔اس کے باوجود کسی افغان جہادی کمانڈر کبھی بھی ڈیورنڈ لائن کے معاملے کو ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا سوائے گل بدین حکمت یار کے جو پاکستان میں جلسوں میں ذومعنی قسم کی بات کرتے تھے کہ مجاہدین کی کامیابی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد نہیں ہوگی ۔اکثر لوگ اس بات پر تالیاں بجاتے تھے کہ شاید حکمت یار افغانستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی بات کرتے ہیں ۔ طالبان اپنی آمد اور طاقت کے بعد سب سے زیادہ جس چیز سے نالاں دکھائی دئیے تھے وہ ڈیورنڈ لائن پر لگی باڑھ ہی تھی۔جسے وہ اکھاڑ کر سکریپ بنا کر گاڑیوں میں بھرکے لے جاتے تھے حالانکہ یہ باڑھ ہی نہیں تھی بلکہ اس کا باڑھ کابوجھ بھی پاکستان کے ٹیکس دہندگان کے کندھوں پر عالمی قرض میںاضافے کی صورت پڑا تھا۔یوں افغانستان سے آنے والی دوخبریں بہم جڑی ہوئی ہیں اور ان میں پاکستان کے لئے پیغام ہے ۔دوسری طرف پاکستان کے حوالے سے انہی دودنوں میں دوخبریں سامنے آئیں دونوں دل شکن اور دل آزار تھیں۔ان میں پہلی خبر یہ تھی کہ برطانوی ائرلائن ورجن اٹلانٹک ائر ویز نے پاکستان میں برطانیہ او رپاکستان کے درمیان اپنی پروازوں کا سلسلہ ختم کر دیا ۔پروازوں کا یہ سلسلہ دسمبر 2020میں اس وقت شروع ہوا تھا جب پاکستان نام نہاد دہشت گردی کی کلہاڑی اپنے کندھے پر اُٹھا کر مضمحل بے حال اور لہولہان ہو چکا تھا۔اسی جنگ کے دوران پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک کا تمغہ بھی عالمی میڈیا نے دیا تھا اور جدید دور میں کسی ملک پر دنیا کا خطرناک ترین ملک ہونے کے لیبل کا مطلب یہ ہے کہ اس کی صنعت اور سیاحت مکمل طور پر تباہ ہوجائے اور یہ وہ شعبے ہیں جن پر بڑے ملکوں کی معشیتوں کی پوری کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی صنعت کا پہیہ جام ہوچکا ہے اسی کی سیر گاہیں اور سیاحتی مقامات ویران ہو چکے تھے اور نتیجے کے طور پر سرمایہ کار بنگلہ دیش اور سنگاپور بھاگ چکے تھے اور سیاحوں نے پاکستان کے دائیں بائیں ملکوں کا رخ کرلیا تھا ۔عالمی ائرلائنز یہاں اپنے آپریشن بند کر چکی تھیں ۔عالمی امدادی ادارے رخت ِ سفر باندھ کر جا چکے تھے ۔سفارتی عملے کی تعداد گھٹائی جا چکی تھی کئی سفارت خانے باہر سے بیٹھ کر ویزوں کا کام کرتے تھے ۔کئی ملکوں نے اپنے کھلاڑی یہاں بھیجنا بند کر دئیے تھے سری لنکا نے یہ جرات کی تھی تو اس کی ٹیم کا لاہور میں جو حال ہوا تھا مدتوں یاد رہے گا۔اس ماحول میں جب میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی کہ برطانوی فضائی کمپنی نے مانچسٹر اور لندن سے اسلام آباد اور لاہور کے لئے پروازوں کا آغاز کیا ہے تو اسے عالمی برادری کی طرف سے پاکستان کے دہشت گردی اور بگاڑ سے آزادہونے پر پہلا اعتماد کا پہلا اظہار جانا گیا تھا ۔امید بندھ چلی تھی کہ یہ سلسلہ دراز ہوجائے گا اور کئی دوسرے ممالک بھی اس سے حوصلہ پائیں گے اور پاکستان کی عالمی تنہائی اور الگ تھلگ کئے جانے کا عمل کمزور پڑے گا ۔کھیل کے میدان آباد ہوں گے ۔دنیا کی بڑی ائر لائنز پاکستان کے لئے پروازوں کا آغاز کریں گی ۔سیاح اور صنعت کار بھی اس سے حوصلہ پائیں گے مگر ہوا یہ کہ دوڈھائی سال بعد ہی ورجن اٹلانٹک نے اپنی پروازیں ختم کرنے کا اعلان کیا اور گزشتہ اتوار کو اسلام آباد ائر پورٹ سے برطانوی ائر لائن کی آخری پرواز ایک دکھی نوٹ چھوڑ کر چلی گئی ۔جس میں ائر لائن نے پاکستانی عوام سے تکلیف کے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوںنے ہر ممکن طور پر پاکستانیوں کا اچھی سروس مہیا کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی کوشش کی مگر اب حالات اس سلسلے کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں تھے اس لئے ائر لائن نے اپنا آپریشن ختم کر دیا ۔اس کے دوسرے روز ہی برطانوی حکومت کا پاکستان کا دورہ کرنے والے اپنے شہریوں کے نام ایک ہدایت نامہ سامنے آیا جس میں انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کا سفر اختیا رکرنے سے گریز کریں کیونکہ ان علاقوں میں دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں ۔ان شہریوں کو مزید ہدایت دی گئی ہے کہ سیاسی مظاہروں میں جانے سے بھی گریز کیا جائے کیونکہ کچھ سیاسی مظاہروں میں مغرب مخالف جذبات پائے جاتے ہیں ۔غالباََ ان کا اشارہ توہین قرآن کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی جانب ہے ۔اس طرح کے ہدایت ناموں سے کچھ اور ہو یا نہ ہو مگر اس سے متعلقہ ملک کی بدنامی ہوتی اور اس کی ساکھ بری طرح مجروح ہوتی ہے۔یوں پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے دو دو خبریں قطعی متضاد ہیں ۔جس افغانستان کو ہم کل تک خانہ جنگی اور تقسیم کا شکار ملک سمجھ کر افپاک کی اصطلاح پر چیں بہ جبیں تھے اب استحکام کی طرف بڑھتا ہوا نظر آتا ہے اور جس استحکام کی امید پر پاکستان نے بے تحاشا قربانیاں دی تھیں دہشت گردی کے خطروں کی گھنٹیاں بجنے کے بعدوہ استحکام دور ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔امریکہ نے جب انڈوپاک کی اصطلاح کی طرف افپاک کا ادارہ قائم کیا تو ہم سب کا خیال تھا کہ ہمارا مقابلہ بھارت کے ساتھ ہے اور امریکہ ہماری توہین کرنے کے لئے ہمیں افپاک کی رسی میں باندھ رہا ہے ۔دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کہاں اوروارلارڈز میں منقسم افغانستان کہاں ؟خود میں نے انہی صفحات پردودہائیوں میں درجنوں کالم اسی موضوع پر لکھے تھے اور شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بڑا بول نہیں بولنا چاہئے۔قسمت کی بات ہے کسی کا تیل نکل آیا تو کسی کا تیل ہی نکل گیا۔

مزید پڑھیں:  کالی حوریں