دوستوں کی محفل اور سرمایہ داری نظام

یوم آزادی کی شب ایک ترقی پسند دوست کے ہاں عشائیے میں شرکت کی جہاں اُن کے چند دیگر ہم خیال دوست بھی شریک تھے ۔ وہی ایک موضوع کہ حالات حاضرہ میں روزمرہ زندگی بّری طرح متاثر ہو رہی ہے اور کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی کہ جس سے فوری آسانی پیدا ہو ۔ وہ باہر جشن مناتے اور شور مچاتے ہوئے لوگوں پہ بھی حیران ہو رہے تھے کہ جیسے سب اچھاہے اور انہیں سب سہولتیں میسر ہیں ۔ مُلکی عدم استحکام ، معاشی بحران اور سرمایہ داری نظام کے حوالے سے خوب مکالمہ ہوا ۔ قارئین کرام ! دوستوں کے مکالمہ سے جو نتیجہ اخذ کیا ، اسے تحریر کر رہا ہوں جس میں شامل کئی نقاط سے اختلاف اور بڑی حد تک اس کی بنیادی فکر سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے جو آپ کی فکر اور مطالعہ کیلئے پیش ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ سرمایہ داری نظام کی عملداری سے بہت پہلے انسانوں کے اندر اپنی بہبود کی آرزو زندہ تھی بلکہ ہمارے ہاں تو اس کے حصول میں بڑی جدو جہد ہوئی ۔ ہر انسان بہتر خوراک ، اچھی رہائش ، تعلیم و صحت کی سہولت ، روزمرہ اشیائے ضرورت کی آسان دستیابی ، پانی بجلی کی فراوانی اور محفوظ رہن سہن کی خواہش بھی رکھتا اور اُسے یہ چیزیں ملتی بھی تھیں ۔سوشلسٹ ممالک کا خاتمہ ہوا ، سوویت یونین نہ رہی جسے مخصوص ذہن والے ہر خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے ، پھر اصل دنیاوی حاکم کے تیار کردہ نظام نے پوری دنیا کو جکڑ لیا اور اس کے سر زد گناہ میں سب مبتلا ہوئے ۔ دوسروں کی طرح ہماری ہر حکومت بھی اب تک یہی کہتی چلی آ رہی ہے کہ مُلک کی معاشی حالت خراب ہے بلکہ ڈیفالٹ کا خطرہ ہے ، اس لیے عوام اپنی خواہشات پر قابو پائیں اور آرزو کرنا چھوڑ دیں ۔جیسے ارباب اختیار کا یہ خیال ہو کہ معاشی بحران عوام نے پیدا کیا ہے ۔ وہ جو گناہ کرتے ہیں ، ان کے گناہ کی سزا عوام کو ہی ملتی ہے ۔ عوام کو اپنے حکمرانوں کا علم نہیں کہ اُن کی نیت کیا ہے اور وہ کیا سوچ رہے ہیں جبکہ اُن کے حکمران بھی یہ نہیں جانتے کہ سات سمندر پار ہونے والے گناہوں کی سزا کی لپیٹ میں وہ کیسے آ گئے؟ ۔ ہماری ہر مثل اور مقدمے کا فیصلہ ہی وہاں ہوتا ہے ، ضمانت ، مچلکہ ، جرمانہ ، قید وبند سب کچھ وہاں بیٹھے حاکم طے کرتے ہیں ۔ برسوں سے ہم گناہِ بے لذت میں پھنس چکے ہیں اور بہت سے لال بجھکڑ یونہی مذاکرات کا مشورہ دیتے چلے آ رہے ہیں ، ہم سے بھلا کون مذاکرات کرے گا اور گلوبل جنگ میں ہمارا کیا اختیار ؟
ہمارے ہاں بگاڑ کی وجہ معیشت ہے مگر اب موجودہ حالات کے پیش نظر اس کو قابو کرنے کی باگیں ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں ، اسے قابو کرنے والے بھی سات سمندر پار بیٹھے ہیں ۔ہم امریکہ کی حاکمیت اور ترقی کی باتیں کرتے ہیں مگر اس بات پہ غور نہیں کرتے کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی دولت بڑے بڑے مالیاتی اداروں کے تصرف میں چلی جاتی ہے ۔ اب اس سرمایہ داری معیشت سے تو ہمارے اندر بہبود کی آرزو پوری نہیں ہو سکتی بلکہ یہ سرمایہ اُلٹا تباہی پھیلا رہا ہے ۔ مانا کہ اس مالیاتی سرمایہ داری کو امریکہ کنٹرول کرتا ہے جبکہ اس کی اپنی معیشت ایک مقروض معیشت بھی ہے اور دُنیا کی گلو بلائزڈ ترین معیشت بھی ہے ۔ امریکہ کے ان مالیاتی اداروں کے ہیڈ کوارٹر ‘ وال سٹریٹ ‘ پر سرمایہ کے اتار چڑھاؤ سے پوری دینا کی معیشت متاثر ہوتی ہے اور ہو بھی رہی ہے ۔ سرمایہ داری نظام کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ نظام سارا بوجھ غریب مزدور پر ڈالے رکھتا ہے، کرپشن اور استحصال پر مبنی یہ نظام از خود کوئی کام نہیں کرتا ۔ اب اس حوالہ سے دیکھیں کہ غریب کون ہے ؟ وہ مزدور ، کسان ، ہنر مند ، بابو ، ریڑھی بان ، چرواہا اور چھوٹے دکاندار جو دولت پیدا کرتے ہیں ۔ مالیاتی بحران جتنا شدید ہوتا جائے گا ، اس کا علاج بھی اتنا شدید ہو گا ۔ اب علاج یہ ہے کہ اس غریب کے کندھے کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ہمارے ایک پروفیسر کہا کرتے کہ ایک غریب پیدائشی طور پر آدھا غروب ہو چکا ہو تا ہے۔انہیں اگر موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو سرمایہ داری نظام میں عوام الناس ٹانگے میں جتے ہوئے گھوڑے کی طرح ہیں ۔ اس ٹانگہ پر سرمایہ دار بیٹھا انہیں تیز دوڑانے کے لیے چابکیں مارتا جاتا ہے ، اپنے ٹانگہ کے ٹکرانے کی کوئی فکر نہیں بس تیز دوڑنا ہی مقصدہے ۔ سب جانتے ہیں کہ اس تیز دوڑانے کا انجام ٹکر یعنی بحران ہے مگر ٹانگے والے دراصل سرمایہ دار اداروں کے مالکان اور اجارہ دار ہیں جو اس تباہ کن راستے سرپٹ دوڑنے کو اپنا منافع سمجھتے ہیں ۔ اس سرپٹ دوڑ کو اب یہاں سب سمجھنے لگے ہیں کیونکہ ‘ پرائیویٹائزیشن ‘ اور ‘ ڈی ریگولیشن ‘ سے پاکستان میں ہر شخص واقف ہے ۔ یہ اسی تیز دوڑ کا نتیجہ ہے کہ عوام الناس کی صحت ، تعلیم اور بہبود کی سہولتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں،روزگار میسر نہیں ، لوگ مُلک چھوڑ کر جا رہے ہیں ، اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں عام آدمی کے بس سے باہر ہیں، مُلک پر قرضہ بڑھ رہا ہے اور غربت عام ہو چکی ہے ۔ یوم آزادی پر نگران وزیر اعظم نے اپنا عہدہ سنبھالا تو دوستوں کو شوکت عزیز یاد آیا۔اُسے جب ایک بڑے بنک میں اکاؤ نٹنٹی کی سیٹ سے اُٹھا کر یہاں اپنے مُلک کا وزیر اعظم بنایا گیا تو اُس نے کہا تھا کہ ” حکومت کا کاروبار سے کیا تعلق ہے،مارکیٹ خود اپنے آپ کو ٹھیک کرتی رہتی ہے ۔ حکومت کا اس سے کوئی کام نہیں ” ۔ہماری ‘ پڑھی لکھی ‘ بیوروکریسی نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور یہی ان کی مجبوری ہوتی ہے ۔ سرمایہ داروں ، تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کے افلاطونوں نے بھی یہی کہا کہ حکومت کیوں سٹیل مل چلائے ، پی ٹی سی ایل چلائے ، یہ کام حکومت کے ہر گز نہیں ہیں ۔ یوں سرکار کو اہم اداروں اور ان کے امور سے دور کر دیا گیا ۔ واپڈا کو توڑ پھوڑ کر مُلک میں بجلی کا دائمی بحران پیدا کر دیا گیا ۔ اب کہاں گیا وہ شوکت عزیز کہ کوئی جا کر پوچھے ، اگر سرکار کا کاروبار سے کوئی واسطہ نہیں تو اس کا کاروباری سے کیا کام ؟
امریکی عوام تو اپنی سرکار سے یہ سوال کر سکتی ہے کہ انہیں مراعات حاصل ہیں ، ہم کیا سوال کریں کہ اول تو آرزو مٹ چکی ہے اور اوپر سے آئے دن سارے اثاثے اسی سوچ کے تحت بیچے جا رہے ہیں۔پرائیویٹ سکول،پرائیویٹ ہسپتال بلکہ اب تو اپنے پرائیویٹ سیکو رٹی گارڈ کہ سرکار کو شہریوں کے تحفظ سے کیا کام؟ ۔ التماس ہے کہ مارکیٹ فورسز کے ہاتھوں میں معاشی پالیسی کا کنٹرول نہ دیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  خلاف روایت عمل