الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے

دنیا میں دو سو کے قریب ممالک ہیں ‘ لیکن بہت کم ملکوں کے لوگ پاکستان کے لوگوں جیسے ہوں گے کہ رات سوتے وقت وقت یہ دعا کرتے ہوں کہ الٰہی! رات خیریت سے گزر جائے اورصبح ہوتے ہی ڈر ڈر کے اخبار کے صفحات پر نظر دوڑاتے ہیں کہ کوئی انہونی نہ ہوئی ہو۔ٹی وی چینلز کا بھی یہی حال ہے کہ کھولتے ہیں بلڈ پریشر بلند ہونے کے سو خدشات پر مشتمل بر یکنگ نیوز چیختی چنگھاڑتی سامنے ہوتی ہیں ۔اس کے ساتھ ایک بڑی مشکل اس وقت ہمیں یہ درپیش ہے کہ سابقہ اتحادی حکومت کے حکم پر پیمرا وغیرہ نے چیئر مین پی ٹی آئی کے نام اور کام وغیرہ کے ذکر پر سختی کے ساتھ پابندی لگائی ہے ۔ پاکستان کے تقریباً سارے چینلز نے اس حکم پر من و عن امنا و صدقتا کہتے ہوئے ایسی تابعداری کا مظاہرہ کیا ہے کہ مجال ہے کہ کہیں چیئر مین کا نام کوئی لینے کی جرأت کرے ، اور کرنا بھی نہیں چاہئے کیونکہ لاکھوں کروڑوں کے کاروبار (اشتہارات) وغیرہ کا مسئلہ در پیش ہے ۔ اس مادہ پرست دور میں کون درویشی اختیار کرنے کا پنگا لے سکتا ہے حالانکہ پیشہ صحافت ہے ایک لحاظ سے پیغمبری پیشہ ، کہ صحافت ، صحیفہ سے ماخوذ ہے اور صحف انبیا علیہم السلام پر نازل ہوتے تھے گویا صحافت ایک مقدس پیشہ ہی نہیں ، مشن بھی ہے تبھی مولانا محمد علی جوہرنے کامریڈ کے ایک اداریہ (The choice of Turnus ) پر تین سال قید با مشقت و تنہائی جھیلی تھی اور اسی قید کے دوران ان کی اکلوتی بیٹی آمنہ سخت بیمار پڑ کر وفات پا گئی تھی ۔ انگریز سامراج نے ان کو اپنی اکلوتی بیٹی کا جنازہ پڑھنے کے لئے پیرول پربھی آزاد کرانا منظور نہیں کیا تھا ۔ اس تاریخی موقعہ پر جوہر صاحب نے اپنے دکھ و غم کا اظہار کس متانت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور کیا تھا ۔۔اپنی بیٹی کو جیل سے مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا
میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں
تجھ سے میں دور سہی وہ تو مگر دور نہیں
امتحاں سخت سہی پر دل مومن ہی وہ کیا
جو ہر ایک حال میں امید سے معمور نہیں
ہم کو تقدیر الہی سے نہ شکوہ نہ گلہ
اہل تسلیم و رضا کا تو یہ دستور نہیں
تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اسکو
نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں
یہی حال مولانا ظفر علی خان کی جدو جہد کا ہے۔ کتنی بار زمیندار کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا ۔ لیکن آپ حق گوئی سے باز نہ آئے ۔شورش کشمیری کی پر جوش ، ولولہ انگیز اور دوٹوک صحافت تو ہے”چٹان”کی صورت میں قائم ابھی کل ہی کی بات ہے ۔
ہمیں خود عمران خان کا نام لینے اور ذکر کرنے کا کچھ زیادہ شوق یا خواہش نہیں ، کیونکہ ایک تو ہمارا سیاست سے براہ راست کوئی تعلق نہیں اور دوسرا یہ کہ زور آوروں سے ڈرتے ہیں ۔ لیکن الجھن یہ آن پڑی ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر بات مکمل ہی نہیں ہو پا رہی ۔ مخالفین تو کب سے اپنے دلوں کی بھڑاس نکالنے کے لئے بات بات پراس کے نام سے نہیں کسی نہ کسی بہانے اور ذریعے سے ذکر کرتے ہی تھے ، اب تو ان کی پردہ دار گھر والی کو بھی صبح و شام زیر بحث لایا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں سابقہ خاتون اول کی”ڈائری” کیا ملی کہ ہماری اخلاقیات کی گرہیں کھول کر رہ گئی ۔ مختلف ٹی وی چینلز پراس ڈائری کی مشمولات کے حوالے سے جو مذاکرے و مباحثے ہوئے ان کو سنتے ہوئے یہی کہا جا سکتا تھا کہ
پستی کوئی حد سے گزرنا دیکھے
جیل کے اندرعمران خان کے حوالے سے ہماری صحافت کی الجھنیں ملاحظہ کیجئے کہ عمران خان سے وہ باتیں منسوب کرتے ہیں۔ کھانے پینے اور صفائی اور حمام و کمرے کی تنگنائی کے لئے شکایت کناں ہیں اور بس! اصل بات جو انہوں نے اپنے وکلاء اور بیگم سے کی ‘ جس میں ہمت و حوصلہ اور اپنے اصول پر ڈٹ جانے اور اس کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا ذکر ہے ‘ کوصاف صاف نظر انداز کردیا بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے پی سی بی کے یاروں سے پاکستان کرکٹ پر شارٹ ڈاکومنٹری سے 1992ء کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان کو سرے سے غائب ہی کرادیا گیا۔ ویسے ہم بھی کیا لوگ ہیں ۔ بھارت کو ہر سال اس بات پر مطعون کرتے ہیں کہ وہ کھیلوں میں سیاست گھسیڑتا ہے ۔۔جبکہ اپنا حال یہ ہے کہ ملک کے اندر اپنے ہی کھلاڑیوں کو سیاست کی وجہ سے نظر انداز کرنے پر آگئے ہیں۔
وطن عزیز کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر دو باتیں ذہن میں آتی ہیں ایک یہ کہ ہم سیاست کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے ‘ دوسری یہ کہ ہم بحیثیت قوم تاریخ سے اپنی غلطیوں کے حوالے سے کوئی سبق نہیں سیکھتے ۔ آج اگرچہ ڈیکلیرڈ مارشل لاء تو نہیں ‘ لیکن کیا اس بات میں اب کوئی ابہام رہ گیا ہے کہ اتحادی حکومت اور موجودہ سیٹ اپ کی پشت پر کون سی قوتیں ہیں ۔۔ کیا اسی قسم کے تجربات اس سے پہلے 1955 تا 1971ء میں نہیں کئے گئے تھے کیا مجیب الرحمان کروڑوں بنگالیوں کا محبوب لیڈرنہ تھا ۔ کیا اس کا استحقاق نہ تھا کہ پا کستان کا وزیراعظم بن کر ملک کی خدمت کرے ۔ ڈھاکہ میں ان کی آخری تقریرمیں بھی کہیں علیحدگی کی بات نہیں ہو رہی بلکہ وہ بنگالیوں کے ساتھ بار بار زیادتیوں پر گلہ و شکایت کر رہا تھا لیکن ادھر ہمارے ہاںیہ حال کہ ان کی کسی بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جارہا تھا۔
پچھلے دنوں ہم نے 14اگست منایا۔۔ کیا کوئی یہ سروے وتحقیق کرانا پسند کرے گا کہ لاہور میں قومی جھنڈے اور جھنڈیاں بنانے والوں سے پوچھے کہ پچھلے سال کتنی بکری ہوئی تھی اور اس سال کتنی ہوئی ہے ۔ کیا پاکستان میں اب سیاست اس حد پہ پہنچی ہے کہ بڑے شہروں میں اس مبارک دن کودفعہ 144 کا نفاذ کرایا گیا بھلا ایسا بھی کسی دوسرے ملک میں ہوا ہے کہ خوشی کے مواقع پر صرف ایک سیاسی جماعت کے ورکروں کو اپنے جذبات کے اظہار سے روکنے کے لئے اس دفعہ کا استعمال کیا گیا ہو۔کیادفعہ 144 کے نفاذ کے بعد نوجوانوں کو روکا جا سکا۔۔؟ نوجوانوں کے جذبات کو روکنا کسی بھی لحاظ سے ملک و قوم کے لئے فائدہ مند نہیں۔
نوجوان تو عجیب ہوتے ہیں ‘ وہ روک ٹوک کے قائل کہاں؟ ان کو زمین پر چودہ اگست منانے نہیں دیاگیاتو انہوں نے غباروں کے ساتھ اپنے جھنڈوں کوباندھ کر فضائوں کوممعطر و رنگین کردیا۔۔ ایک نوجوان نے تو برف فیکٹری کے برف سلوں پر جھنڈے بنوا کر گاہگوں کے حوالے کرکے اپنا پیغام بھی پہنچا دیا۔ لہٰذا کیا اس بات کی مقتدر حلقوں میں ضرورت محسوس نہیں ہو رہی کہ ملک و قوم کی خاطر ملک کی دو بڑی شخصیتیں اپنی اپنی انائوں سے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنے پیارے ملک اور کروڑوں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ایک ہوجائیں آئین پاکستان کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن کے ا ندر اندر شفاف انتخابات کروا کر ملک و قوم کو الجھن و ابہام سے جتنا جلد ممکن ہوا نکال دیا جائے ۔ ورنہ ہم جیسے لوگ تو یہی کہہ سکتے ہیں۔
وہاں بالوں میں کنگھی ہو رہی ہے خم نکلتا ہے
یہاں رگ رگ سے کھینچ کھینچ کر ہمارا دم نکلتا ہے
الٰہی خیر ہوالجھن پہ ا لجھن بڑھتی جاتی ہے
نہ میرا دم نہ ا ن کے گیسوئوں کا خم نکلتا ہے

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں