پولیس کے چہرے پر بدنما داغ

پشاور کی رہائشی خاتون کو ہراسا ں کرنے اور اسے شوہر سے طلاق لینے پر اکسانے کی پاداش میں پولیس افسر کے خلاف تھانہ چمکنی پولیس نے مقدمہ درج کیا جانا دیر آید درست آید کامصداق امر ہے متاثرہ خاتون کی فریاد پریس کانفرنس کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بالاخر جبکہ آئی جی پولیس نے متعلقہ افسر کو فیلڈ ڈیوٹی سے ہٹاکر سنٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے اور اس کے خلاف الزامات کی انکوائری کا بھی حکم دیدیا گیا ہے۔میڈیا نے بھی خاتون کی پریس کانفرنس کو وقعت نہ دی اور اب پولیس ترجمان کی جانب سے کارروائی کے عندیہ کے بعد اس کی اشاعت ہوئی ہے جس سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس حکام نے یہاں تک کہ آئی جی آفس نے متاثرہ خاتون کی وہاں جا کر فریاد اور درخواست پر بروقت نوٹس کیوں نہ لیا اور چمکنی پولیس نے مقدمہ کے اندراج سے غیر قانونی طورپر لیت و لعل سے کیوں کام لیااگر بروقت یہ کام ہوجاتا اور خاتون کی روتی ہوئی پریس کانفرنس نہ ہوتی تو محکمے کی ساکھ کو اس قدردھچکا نہ لگتا جہاں تک الزامات اور صفائی کا تعلق ہے چونکہ یہ دو فریقوں کامعاملہ ہے اس لئے کسی یکطرفہ کہانی اورموقف کو پورا سچ قرار نہیں دیا جا سکتا اس ضمن میں تصویر کادوسرارخ بھی سامنے آئے تو صورتحال واضح ہو گی جس کا تقاضا ہے کہ اس واقعے اور الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں اور پولیس افسر کے خلاف انکوائری ہوتا کہ کسی سے ناانصافی نہ ہو البتہ آئی جی آفس اور تھانہ چمکنی کی جانب سے جس غفلت اور جانبدارانہ کردار کا مظاہرہ کیاگیا ہے اس سے پولیس کے محکمے کا داغدار چہرہ سامنے آرہا ہے اگر پولیس ایک فریاد دی خاتون کی سن نہیں سکتی تو اس سے مظلوم کی داد رسی کی توقع کیسے رکھی جائے الزامات کی صداقت و الزام تراشی سے قطع نظر اس کی تحقیقات ہونی چاہتے تھی جس میںبلاوجہ تاخیر اور جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا جس کا صوبائی حکومت کو نوٹس لینا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  سیشن جج کا اغوائ'قابل تشویش !