دانش گاہوں کی تباہی اور”نیرو”کی بے حسی

ہم ایک بے حس اور مردہ ماحول میں جی رہے ہیں ۔ ملک کی صورتحال تو جو ہے سو ہے مگر گزشتہ ایک ماہ سے پشاور یونیورسٹی کے کیمپس پر موجود چاروں یونیورسٹیوں کے ملازمین مسلسل ہڑتال پر ہیں اور اس سے پہلے بھی چار مرتبہ کئی کئی ہفتوں کی ہڑتالیں کرچکے ہیں ۔اور ایک بار ایک سو بیس دن تک احتجاج کرنے والی حکومت نے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی ایک علامتی ریلی پر یلغار کرکے پولیس سے ان اساتذہ کواسمبلی کے سامنے زدوکوب کروایا تھا اور اس وقت کے وزیر کامران نے پھر اس زد وکوب کی تصویریں سوشل میڈیا پر فخراً ڈالی تھیں ۔وہ ملازمین اب بھی اپنے جائز حقوق کے لیے مسلسل پرامن احتجاج کررہے ہیں ۔مگر حکومت ، یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار، چانسلر آفس ، ہائر ایجوکیشن کمیشن ، وفاقی حکومت ، عدالت عالیہ و عظمی ، سول سوسائٹی ،طلبا ء کے والدین ،ان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبا، جو ان یونیورسٹیوں کے ایلومینائی ہیں ۔ سب ” نیرو ” ہیں ۔وہ اپنے سامنے ان عظیم درسگاہوں کو آگ میں جلتا دیکھ رہے ہیں اور چین کی بانسری بجا رہے ہیں ۔ ان اداروں نے کچھ بھی تو نہیں کیا اس خطے کے تمام پڑھے لکھے لوگ تو مریخ سے آئے ہیں ۔ یہ جو سیاست دان ، بیوروکریٹس، وکیل ، جج، ڈاکٹر ، انجینئر، استادغرض ہر علم کے ماہرین جو آج سہولت کی زندگی گزار رہے ہیں ،یہ پیر بابا کے کرامات سے بنے ہیں ۔ان اداروں کا ان کے بنانے میں کوئی حصہ ہی نہیں ہے ۔ اس ملک کو چلانے والے ،اس کو چلانے کے لیے باہر سے پیسے بھیجنے والے اگر یہ تعلیمی ادارے نہ ہوتے تو افغانیوں کی طرح کسی بازار میں ہتھ ریڑھی لگا کر سبزی بیچ رہے ہوتے یا ان کے کندھے پر بھی بندوق ہوتی اور وہ کسی اور کی جنگ لڑ رہے ہوتے ۔وہ ادارے جہاں سے پڑھ کر تربیت حاصل کرکے آج یہ کسی نہ کسی مقام پر ہیں وہ اتنے بے حس ہیں کہ ان کی مادر علمی تباہ ہورہی ہے مگر وہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں ۔آخر ایسا کیا ہوا کہ 2016 تک منافع میں چلنے والے یہ ادارے اچانک اس حالت کو پہنچے کہ ان کے پاس ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہ ہی نہیں ہے ۔ان ملازمین میں وہ ہزاروں پڑھانے والے بھی ہیں ۔جو اپنے بیجوں کے ٹاپر تھے ، جنہوں نے اعلیٰ ترین تعلیمی ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں ۔جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں ۔جن کی عالمی مارکیٹ میں مانگ ہے ۔ ان کے شاگرد دنیا بھر اور پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر میں ملین روپوں میں تنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں ۔ ان کے شاگرد اور ان کے کمزور ترین ساتھی طالب علم بیورو کریسی کا حصہ بن کر لا تعداد مراعات اور ان کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں ۔ مگر ان کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کیا جارہا ہے ۔ ان کو اول تو وقت پر تنخواہ نہیں دی جاتی اور اگر مل بھی جائے تو 2023کے دسمبر میں جون 2021کے برابر تنخواہ اور اس تنخواہ سے بھی کئی ایک الاونسسز کاٹ کر ۔جبکہ پاکستان میں بی پی ایس پر کام کرنے والے تمام ملازمین کو یہ بنیادی الاونسسز دئیے جارہے ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی صوبائی اور وفاقی ملازمین کئی ایک الاونسسز اور مراعات لے رہے ہیں ۔صوبائی اور وفاقی حکومت کے ایک سترہ گریڈ کے ملازم کو ایک کروڑ سے زیادہ رقم کی گاڑی اور ڈرائیور دیا جاتا ہے ۔جبکہ یونیورسٹیوں کے گریڈ بائیس کے پروفیسر کو سائیکل تک نہیں دی جاتی ۔ اس گریڈ بائیس کی تنخواہ اوربیوروکریسی اور عدلیہ میں کام کرنے والے گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے تنخواہ سے کم ہے ۔اس لیے کہ پروفیسر صرف بنیادی پے سکیل کی تنخواہ لے رہے ہیں ۔جبکہ پاکستان کی دیگر ملازمین بنیادی پے سکیل کے علاوہ اس پر ایک سو پچاس گنا ایک الاونس لیتے ہیں اور اس کے ساتھ الاونسسز کی ایک طویل فہرست ہے ۔اور پیسوں کے ساتھ ساتھ ان کو عملی طور پر ملازمین کی ایک فوج بھی دی جاتی ہے ۔ ان کے دفتروں اور گھروں پر ان کو مراعات فراہم کی جاتی ہیں ۔ ان کو سفری اور مفت رہائشی سہولیات ملتی ہیں ۔وہ دوران ملازمت فوت ہوجا ئیں تو ان کے ورثا کو پیکج دیا جاتا ہے ۔اس کے باوجود ان کی کارکردگی دیکھیں ۔ یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ ان کو یہ سب کچھ کیوں دیا جارہا ہے ، ان کو بے شک اس سے زیادہ دیا جائے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ وہی لوگ پھر اٹھ کر یونیورسٹیوں کے ملازمین کے جائز حقوق پر ڈاکہ ڈالیں اور ان کو ان کا حق بھی نہ دیں اور جو تھوڑا بہت حق ان کو گزشتہ برسوں میں مل رہا تھا وہ بھی ان سے چھین لیں ۔ اور ان کو کہیں کہ آپ تین برس پرانے خالص تنخواہ پر گزارا کریں ۔ کیا مہنگائی صرف صوبائی اور وفاقی ملازمین کی لیے بڑھی ہے ؟ کیا ڈسپیرٹی صرف ان کے لیے تھی ،؟ کیا یونیورسٹی کے ملازمین کسی اور دنیا میں رہتے ہیں ؟ کیا یونیورسٹی کے ملازمین بجلی اور گیس استعمال نہیں کرتے؟ بالکل کرتے ہیں اور اس کی کمرشل قیمت بھی ادا کرتے ہیں جبکہ دوسرے ملازمین کو اس مد میں بھی حکومت مراعات دے رہی ہے ۔ اب ان ملازمین کا اس گزشتہ تنخواہ میں گزارہ نہیں ہورہا ہے ۔ اس لیے کہ مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ بجلی ،گیس ،تیل اور دیگر ضرورتوں کی قیمت کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے ، بچوں کے تعلیمی اخراجات تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔ جس کا حکومت نے ادراک کیا اور ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا ۔ مگر یہ اضافے جو گزشتہ برسوں میں ہوئے وہ ابھی تک یونیورسٹی ملازمین کو نہیں دئیے گئے ۔اس سے وہ فرق جو پہلے ہی یونیورسٹی کے ملازمین اور دیگر صوبائی اور وفاقی ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں تھا وہ مزید بڑھ گیا ہے ۔ اب ایک ہی گریڈ میں ملازمت کرنے والے سکول کے استاداور یونیورسٹی کے استاد کی تنخواہ میں بہت زیادہ فرق ہے ۔تو کیا یونیورسٹی کے ملازمین غلطی پر ہیں کہ وہ اپنا بنیادی حق بھی نہ مانگیں ۔ حق مانگیں تو حکومت کہتی ہے کہ یونیورسٹی ایک خود مختار ادارہ ہے وہ اپنا بندوبست خود کرے ۔ لیکن اس خود مختاری کو جب حکومت نے مداخلت کرنی ہوتو پھر نہیں مانتی ۔ یہ چونکہ سرکاری یونیورسٹیاں ہیں اس لیے ان میں تعلیم ایک معاشرتی سروس کی طور پر دی جاتی ہے جس کی قیمت اتنی رکھی جاتی ہے جتنا ایک عام آدمی سہولت کے ساتھ برداشت کرسکے ۔ یونیورسٹیوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں طالب علموں کی فیسوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا ہے ۔مگر یونیورسٹیوں کی جاری اخراجات کا صرف تیس سے چالیس فیصد ہی اس آمدنی سے پورا ہوسکتا ہے ۔ اس لیے یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ باقی رقم ان یونیورسٹیوں کو فراہم کی جائے تاکہ یہ قومی فرض سہولت کے ساتھ ادا کرسکیں ۔ جتنے پیسے حکومت اپنے اہلکاروں کے سالانہ پیڑول کے لیے مختص کرتی ہے اس کا اگر صرف دس فیصد بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص کیا جائے تو ان یونیورسٹیوں کی تمام مالی ضرورتیں پوری ہوسکتی ہیں ۔ ایک شہر کے بیوٹی فیکیشن کے نام پر جتنے پیسے ضائع کیے جاتے ہیں ان سے پورے صوبہ کی یونیورسٹیاں چلائی جاسکتی ہیں ۔کمال دیکھیں جن یونیورسٹیوں کی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن بنایا گیا تھا ۔ وہ اپنے ملازمین کو یہ تمام مراعات ،اضافے اور الاونسسز دے رہا ہے مگر جن یونیورسٹیوں کے لیے اسے بجٹ دیا جاتا ہے ان کے لیے یہ سب شجر ممنوعہ ہے ۔ ان یونیورسٹیوں کی بربادی میں سب کا ہاتھ ہے ۔جس طریقے سے ان کو شعوری اور عملی کوششوں سے بربادی اور تباہی کی طرف لے جایا جارہا ہے اس کی قیمت آنے والی نسلیں چکائیں گی ۔ گزشتہ چار پانچ برسوں میں ان اداروں کی تباہی کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چائیے ۔ ان اداروں کو انتظامی سطح پر سنبھالنے والوں کا یہ فرض تھا کہ وہ یونیورسٹیوں کی مفادات کا خیال رکھتے اور بروقت اقدامات کرتے ۔ ایسا کرنا کی جگہ وہ سیاست دانوں ، بیوروکریٹس اور کچھ اور طبقوں کو خوش کرنے میں لگے رہے اور ان لوگوں کی ایما پر یونیورسٹیوں کے ملازمین کا استحصال کرتے رہے اور یونیورسٹیوں کے تباہی کا باعث بنتے رہے ۔ یونیورسٹیوں کی خود مختاری اور الگ حیثیت کو پائمال کرتے رہے ۔ وہ ادارے جو عظیم لوگوں نے بنائے تھے اور درددل رکھنے والوں نے ان کی مسلسل تعمیر کی تھی ۔ان کو گزشتہ چند برسوں میں کچھ انا پرست ، مطلب پرست ، ذہنی بیماروں نے اس حال تک پہنچا دیا ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ہر ادارے کی بربادی اور تباہی میں چند لوگوں کا شخصی فائدہ ہوتا ہے ۔ ریلوے ، پی آئی اے ، سٹیل مل اور دیگر ادارے جو تباہ ہوئے اس میں کچھ اشخاص کا بہت بڑا فائدہ ہوا ہے ، یونیورسٹیوں کی تباہی میں بھی کچھ لوگوں نے فائدے اٹھائے ہیں ۔اور یہی لوگ حکومتوں اور بیوروکریسی کی آنکھ کا تارا ہیں ۔ لیکن تاریخ ہمیشہ ایسے کرداروں کو بے نقاب کرتی ہے اور ان کی اولاد پھر اس کی قیمت چکاتی ہیں ۔یونیورسٹیوں میں جس طرح ایک مخصوص سیاسی جماعت کو سب کچھ کرنے کی کھلی اجازت ملی ہوئی ہے ۔اس کا انجام بھی عنقریب آپ دیکھ لیں گے ۔ان اداروں کو جلتا ہودیکھ کر آپ خوش نہ ہوں ۔اس لیے کہ ان اداروں میں آپ کے بچوں کی تربیت ہونی تھی ۔یہ باقی نہیں رہیں گے تو پھر اپنے بچوںکو آپ عنقریب کسی ایک جنگ کا ایندھن بنتے دیکھیں گے ۔

مزید پڑھیں:  اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی ''معراج''