دہشت گردی میں اضافہ

حالیہ ہفتوں میںملک خصوصاً خیبر پختونخوا میں دہشت گردی واقعات میں ایک بارپھر اضافہ باعث تشویش امر ہے ان حملوں کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نامی تنظیم نے قبول کی ہے’مگر اس کے ڈانڈے افغانستان کے اندر جاکرملتے دکھائی دیتے ہیں ‘ اور افغانستان سے دہشت گرد عناصرکو دستیاب سہولیات خیبر پختونخوا اور بالخصوص جنوبی اضلاع میں دہشت گردی میںا ضافہ کی بنیادی وجہ ہے’درابن میں حملے کے حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق منگل کی صبح چھ دہشت گردوں نے درابن میں سکیورٹی فورسزکی چوکی پرحملہ کیا اور بارود سے بھری گاڑی کوچوکی سے ٹکرادیا’دہشت گردوں کے حملے میں 23 فوجی جوان شہید ہوئے جبکہ سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تمام چھ دہشت گرد ہلاک ہو گئے آئی ایس پی آر کے مطابق سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی چوکی میں داخل ہونے کی کوشش کوناکام بنا دیا ناکامی پردہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چوکی سے ٹکرا دی خود کش حملہ بھی کیا گیا ‘ دھماکوں کے نتیجے میںعمارت گرگئی دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں بھی سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مزید چار دہشت گرد لقمہ اجل بن گئے درازندہ میں خفیہ معلومات پرآپریشن کے دوران دہشت گردوں کا ٹھکانہ تباہ کیا گیا جبکہ آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے 17دہشت گردوں کو ہلاک کیا’ دہشت گرد سکیورٹی فورسز اور عوام پرحملوں میںملوث تھے پاکستان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کی پوسٹ پردہشت گرد حملے پر افغان ناظم الامور کو طلب کرکے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کوپکڑ کر حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے دفترخارجہ سے جاری بیان کے مطابق سیکرٹری خارجہ نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کی پوسٹ پر مہلک دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں افغان عبوری حکومت کے ناظم الامور کوطلب کرکے پاکستان کی جانب سے ڈیمارش جاری کردیا ‘ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک دہشت گرد گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے’ افغان ناظم الامور سے کہا گیا کہ وہ فوری طور پر افغان عبوری حکومت کوآگاہ کریں اور حالیہ حملے کے مرتکب افراد کے خلاف تحقیقات کرکے سخت کارروائی عمل میںلائی جائے ‘ افغان حکومت سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ دہشت گردی کے اس واقعے کی عوامی سطح پرمذمت کرے اور تمام دہشت گردوں’ ان کی قیادت اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف فوری طور پر کارروائیاںکی جائیں ‘ سیکرٹری خارجہ نے مطالبہ کیا کہ افغان حکومت حملے کے مرتکب افراد اورافغانستان میں ٹی ٹی پی کی قیادت کو پکڑ کرحکومت پاکستان کے حوالے کرے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال کو روکنے کے لئے تمام ضروری ا قدامات کرے ‘ جہاں تک افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کے مذکورہ گروپ تحریک جہاد پاکستان کی جانب سے بطور لانچنگ پیڈ استعمال کرنے کا تعلق ہے تواس حوالے سے نہ صرف پاکستان کے جید علمائے کرام اور مفتیان کی ایک غالب اکثریت نے پاکستان کے اندرکسی بھی گروپ کی جانب سے جہاد کے نام پر ہونے والی سرگرمیوں کوخلاف اسلام اور جہاد کے عمومی معنی ‘ مفاہم اور مقاصد کے منافی قرار دیتے ہوئے پاکستان میں ان گروپوں کی جانب سے تمام ایسے اقدامات کے جہاد سے تشبیہ قرار دینے کواسلام کی روح کے خلاف قرار دے رکھا ہے اور جہاد کے نام پرسرگرمیاں کرنے والوں کو ”خارجی” قرار دے رکھا ہے ‘ اس لئے اس فیصلے کی رو سے محولہ تنظیم کا نام ”تحریک جہاد پاکستان” ہی غلط ہے ‘ دوسرے یہ کہ خود افغانستان کی نگران حکومت نے بھی افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے استعمال کرنے کی ممانعت کر رکھی ہے ‘ اس لئے جو لوگ خودافغان حکومت کے ذمہ داروں کے بیانات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنے سے باز نہیں آتے ان کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرنے کامطالبہ بالکل درست ہے کیونکہ یہ عناصر پاکستان اور افغانستان کے باہمی برادرانہ تعلقات اور ہمسائیگی کے تقاضوں کی صریح خلاف ورزی کرکے دونوں برادر ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ‘ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان کی نگران انتظامیہ ان دہشت گردوںکو فوری طورپرگرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کردیں تاکہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ضروری اقدام اٹھائے جا سکیں یہاں پراہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ان دہشت گردوں کے تمام سہولت کاروں کے خلاف بھی کریک ڈائون کیا جائے کیونکہ جس تیزی سے ان کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اگر ان پر مضبوط ہاتھ نہ ڈالا گیا توآنے والے انتخابات کے دوران نہ صرف تخریب کاری بڑھ سکتی ہے بلکہ مخصوص سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے خلاف ان کے ممکنہ حملوں سے مشکل صورتحال پیش آسکتی ہے ‘ امید ہے کہ سکیورٹی ادارے ان عناصر کے خلاف سخت سے سخت اقدام کرکے ان کے مذموم مقاصد کوناکام بنانے میںکوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔

مزید پڑھیں:  سیشن جج کا اغوائ'قابل تشویش !