بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

بھارتی سپریم کورٹ نے آخرکار وہ فیصلہ سنادیا جس پر کچھ لوگ نگاہ امیدلگائے بیٹھے تھے مگر اگثر کا خیال تھا کہ بھارت کی عدالت سے انصاف پر مبنی کوئی فیصلہ نہیں آئے گا۔یہ فیصلہ اس لحاظ سے غیر متوقع نہی تھا کیونکہ بھارتی سپریم کورٹ نے آئین ہند میں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ370اور 35Aکے خاتمے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو چار سال تک زیر التوا رکھا تھااور اس عرصے میں بھارت نے کشمیر کی تمام زمینی حقیقتوں کو کسی بھی رکاوٹ کے بغیر بدل دیا تھا۔جن میں کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے والی قانون سازی بھی شامل تھی۔بھارتی سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی سماعت میں تاخیری انداز اختیار کرنے کے لئے یہ عذر اپنایا تھا کہ عدالت کے پاس زیادہ ضروری مقدمات زیر سماعت ہیں حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب اسی لاکھ آبادی محاصرے کی حالت میں تھی اور وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہو چکی تھی۔آزاددنیا کے ساتھ اس کے سارے رابطے منقطع کر دئیے گئے اور کسی بھی سنگین انسانی بحران کے خطرات سایوں کی طرح سروں پر منڈلا رہے تھے۔اس کے باوجود عدالت کی طرف سے انسانوں کی بنیادی انسانی حقوق سے زیادہ ضروری مقدمات کا عذر ہی یہ بتارہا تھا کہ بھارتی عدالتوں کی آزادی اب محض ایک تصور اور تخیل ہی رہا ہے۔بھارت کی بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات نے جہاں بھارت کے بارے میں بہت حقیقتوں اور تصورات کو بدل دیا ہے وہیں یہ تصور بھی تبدیل ہو گیا ہے کہ بھارت کی عدلیہ حکومتوں کے دبائو میں آنے سے آزاد ہو کر فیصلے کرتی ہے۔محمد مقبول بٹ اور افضل گورو کے مقدمات میں بھارتی عدالتوں کے فیصلوں نے تو پہلے ہی یہ حقیقت عیاں کر دی تھی اس کے باوجود بھارتی عدلیہ کا کچھ نہ کچھ بھرم باقی تھا۔درخواست گزاروں مقبوضہ کشمیر کے دوسابق وزرائے اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل تھیں۔محبوبہ مفتی نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ کشمیریوں کی رائے حاصل کئے بغیر ہونے والا فیصلہ غیر آئینی ہے کیونکہ آئین ہند میں واضح طور پر کشمیریوں کی مرضی او رمشورے کی بات کی گئی ہے۔مودی حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کشمیراسمبلی کو ختم کر دیا تھا اور اس فیصلے میں کسی طور کشمیریوں کی رضامندی شامل نہیں۔کشمیر اقوام متحدہ میں ایک متنازعہ مسئلے کے طور پر موجود ہے کاغذوں میں اس کی متنازعہ حیثیت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تنازعے کے حل کے لئے بننے والے کمشنز کی صورت موجود ہے اور کونسا عالمی راہنما جس کا بیان ریکارڈ پر موجود نہیں کہ پاکستان اور بھارت کو تنازعہ کشمیر کو پرامن طور پر مذاکرات سے حل کرنا چاہئے۔ا ور زمین پر اس تنازعے کی بین الاقوامی حیثیت اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین اور سیزفائر لائن کو کنٹرول لائن کہنا اور اس کے لئے بارڈر کی اصطلاح استعمال نہ کرنا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کشمیر ایک سہ فریقی مسئلہ ہے اور ا س کو کوئی معاملہ بھی کسی ایک فریق کا اندرونی معاملہ نہیں۔اس حد تک بات ٹھیک ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعہ370 بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور کشمیری راہنما شیخ محمد عبداللہ کے طویل دوستانہ تعلقات کا مظہر تھی۔اسی امید پر نہرو نے شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا تھا۔بھارت کے آئین کی تیاری کے موقع پر سردار پٹیل کا سخت گیر کانگریسی گروپ ایسی کسی شق اور دفعہ کا کھلا مخالف تھا مگر پنڈت نہرو نے امبیڈ کرکی منت سماجت کرکے اور شیخ عبداللہ کے ساتھ اپنے وعدوں اور تعلقات کا واسطہ دے کر اس دفعہ کو آئین کا حصہ بنوایا۔جس کے تحت دہلی کے پاس صرف خارجہ امور،مواصلات اور دفاع کے تین شعبے تھے جبکہ باقی تمام اختیارات مقبوضہ جموں وکشمیر کی حکومت کو حاصل تھے۔اس دفعہ کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ کے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو من وعن اپنا کر آئین کا حصہ بنایا گیا۔اس دفعہ کے تحت مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کو صدر اور وزیر اعظم کے عہدے اپناآئین اور پرچم کا حق دیا گیا۔یوں جموں وکشمیر کی ریاست بھارت میں اپنی نوعیت کی منفرد ریاست تھی جو مہاراجہ کے مشروط الحاق کے کچے دھاگے کے ساتھ بھارت کے آئین کا حصہ تھی۔بھارت کی طرف سے کشمیر کو دی گئی یہ آزادی ء پرواز محض دوسال ہی جاری رہی اور بھارتی حکومت نے اس دفعہ کو غیر موثر بنانے کی کوششوں کا آغاز کرکے کشمیریوں کے بال وپر کترنا شروع کر دئیے ۔ 1953 میں شیخ عبداللہ کو برطرف کرکے گرفتار کر لیا گیا اور یوں پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان یارانے کی اس یادگار کی فلک بوس عمارت کی پہلی اینٹ کھسک کر رہ گئی۔شیخ عبداللہ کی برطرفی اگرچہ دو دوستوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا کا شاخسانہ تھا اور پاکستان اس میں برا ہ راست فریق نہیں تھا مگرشیخ عبداللہ کی برطرفی پر پاکستان نے بھرپور احتجاج کیا۔محمد علی بوگرہ نے بھارت کا ہنگامی دورہ کرکے صورت حال پر اپنی تشویش ظاہر کرنے کی کوشش کی مگر یوں لگتا ہے کہ نہرو نے انہیں اس معاملے میں کودنے سے سختی سے روک دیا کیونکہ دونوں لیڈروں کی ملاقات کا جو اعلامیہ جا ری ہوااس میں اس مسئلے کو نظر انداز کیا گیا تھا۔شیخ عبداللہ کو دی گئی آزادیاں بھارت نے ان کے جانشین بخشی غلام محمد کے ذریعے واپس لینے کا عمل شروع کیا۔بھارت نے صدر اور وزیر اعظم کے عہدے ختم کرکے گورنر اور وزیر اعلی میں بدل دئیے گئے۔بھارتی آڈیٹر جنرل اور الیکشن کمیشن کو کشمیر تک توسیع دی گئی۔الحاق کو حتمی قرار دیا گیا آل انڈیا سروسز یعنی انڈین اینڈمنسٹریٹو سروسز اور انڈین پولیس سروسز کا دائرہ بھی کشمیر تک بڑھایاگیا۔1964میں بھارتی آئین کی 356اور357کے تحت ریاستی حکومت کی ناکامی کی صورت میں صدر راج کا اختیار دے دیا گیا۔ اس سارے ناجائز تجاوزپر بھی پاکستان نے ہر مرحلے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا۔1975میں اندراگاندھی اور شیخ عبداللہ کا معاہدہ ایک اندرونی معاملہ تھا جو کشمیر کی رہی سہی خودمختاری کو چاٹ گیا اور بھارتی سپریم کورٹ کا دائر جموں وکشمیر تک وسیع ہوگیا۔
پاکستان نے اس مسئلے کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دینے کی بجائے عام ہڑتال کی اپیل کی۔جس کا دنیا بھر کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھرپور اثر ہو ا اور اپنی ہڑتال کی کال کی اس عوامی پزیرائی کو دیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کشمیریوں نے اس معاہدے کو کلی طور پر مسترد کر دیا ہے۔اس لحاظ سے دفعہ 370دہلی کے حاکم اور سری نگر کے محکوم حکمرانوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا مگر یہ بھارت کے ڈھانچے میں کشمیر کی الگ شناخت کی علامت تھی۔بھارت نے آزادی کی اس عمارت کو پہلے خود ہی ویران کیا پھر اس کے دردیوار اکھاڑے اور پانچ اگست کو اس کا ملبہ بھی چرانے کی کوشش کی تاکہ ثبوت اور آثار باقی نہ رہیں۔پاکستان کو ماضی کی روایت کے تحت ہر اس کشمیری کے ساتھ کھڑا ہونا ہے جو لمحہء موجود میں دہلی کے مقابل کھڑا ہوتا ہے۔ایک فریق کے طور پر پاکستان کی یہ تاریخی ذمہ داری ہے۔یوں تو5اگست 2019سے بہت پہلے ہی کشمیر کی خصوصی شناخت کو مٹاڈالنے کی کوششیں آہستہ روی سے جاری تھیں مگر 2019 سے سال بھر پہلے یہ مقدمہ بھارتی عدالتوں میں پراسرار انداز سے پہنچا دیا گیا تھا۔سال بھر پہلے ہیہم شہری نامی ایک فرضی تنظیم نے بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370کو چیلنج کردیا تھا۔بھارتی سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ35Aپر فیصلہ سنانے کی تاریخوں کو آگے بڑھانا شروع کر دیا تھا۔سپریم کورٹ کے ججز نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ بینچ تین رکنی تھا مگر ایک رکن کی غیر حاضری کی وجہ سے فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔سپریم کورٹ نے مقرر ہ دن فیصلہ سنانے سے گریز کیا۔جس دن فیصلہ سنانا تھا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں زودار ہڑتال چل رہی تھی۔مشترکہ مزاحمتی فورم کی اپیل پر ہونے والی دو روزہ ہڑتال نے کاروبار حیات معطل کر کے رکھ دیا تھا اور عوام چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں احتجاج کر رہے تھے۔ وی دی سٹیزن(ہم شہری) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بھارتی سپریم کورٹ میں یہ رٹ دائر کر رکھی تھی۔ بھارتی آئین کی دفعہ35Aمقبوضہ کشمیر کو خصوصی شناخت دیتی ہے جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری باشندہ ریاست جموں وکشمیر میں نہ تو جائیداد خرید سکتا ہے اور نہ ووٹ کا استعمال کر سکتا ہے۔اس دفعہ کے تحت بھارت کا شہری کشمیر میں ملازمت کا حق بھی نہیں رکھتا۔یہ دفعہ کشمیر کی الگ شناخت کے حوالے سے بھارت کی قیادت بالخصوص پنڈت جواہر لعل نہرو کے وعدوں کی آخری آخری نشانیوں میں شامل ہے۔غیر کشمیری باشندوں کے کشمیر میں زمینیں خریدنے اور ملازمت حاصل کرنے کا قانون جسے عرف عام میں سٹیٹ سبجیکٹ یعنی پشتنی باشندہ ریاست جموں وکشمیر کا تصدیق نامہ کہا جاتا ہے مہاراجہ ہری سنگھ نے نافذ کیا تھا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے پہلے ہی یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ اس قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر بھارتی سرمایہ دار وادی کی طرف نقل مکانی کریں گے اونے پونے داموں زمینیں خریدی جائیں گی اور مغربی پاکستان سے جانے والے لاکھوں ہندو پناہ گزین پہلے ہی جموں کے علاقوں میں شہریت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔پنڈتوں کے لئے الگ بستیاں بسانے کے منصوبے بھی کاغذوں میں تیار ہیں،امرناتھ یاتریوں کے لئے وسیع وعریض رہائشی منصوبے اور انہیں اس کے لئے الگ سے انتظامیہ کا قیام اور ان کے لئے مکانیت کی سہولت کی فراہمی وادی کے مسلمان اکثریتی کردار کے اوپر لٹکتی ہوئی تلوار رہی ہے اور یوں کشمیر میں ایک اسرائیل کے خدوخال ابھرنا شروع ہوجائیں گے۔ اب چار سال سے جو کچھ ہورہا ہے اس کی عملی تصویر ہے۔حال ہی میں محبوبہ مفتی کا یہ چونکا دینے والا بیان سامنے آیا ہے کہ بھارتی حکومت دس لاکھ غیر کشمیریوں کو کشمیر میں بے زمین کو زمین دینے کے نام پر بسا کر آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتی ہے۔یہ ان خدشات اور خطرات کو تقویت دے رہا ہے کہ بھارت کشمیر میں نوآبادیاتی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔کشمیری مسلمان ہمیشہ سے اس خطرے کی بو محسوس کرتے رہے ہیں مگر نریندر مودی کے دور حکومت میں یہ خطرہ بہت عیاں ہو کر سامنے آیا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کے آتے ہی کشمیر میں مزاحمت کے ایک نئے اور نہ ختم ہونے والے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔وادی کے مسلمان فلسطین ماڈل کے خلاف ردعمل میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔طاقت اور حیلہ جوئی سے کشمیریوں کو رام نہ کیا جا سکا اور اب آخری چارہ کار آبادی کے تناسب کی تبدیلی ہے۔اس کے لئے پہلے ہی بھارت کے آئینی اداروں کا سہارا لیا جا نے لگا تھا اور اب انہی آئینی اداروں کے پاس کشمیریوں کا مقدمہ تھا جنہوں نے چار سال بعد کشمیریوں کی درخواستوں کی طرف متوجہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی