حاکم ہو تو ایسا ہو حکومت ہو تو ایسی ہو

اللہ تعالی نے امام عادل پر فرض کیا ہے کہ وہ خود کو مفلس ونادار لوگوں کی سطح پر رکھیں۔اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کی زندگی کے لئے ایک سنہری اصول بیان فرمایا جسے عملی جامہ پہنانے سے لوگوں کی گردنوں پر ہی نہیں ان کے دلوں پر حکومت کی جاسکتی ہے ۔فرمایا میں ایک حاکم ہوں اور امام وحاکم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی زندگی یوں گزارے کہ اس کی حکومت میں غریب ترین شخص جیسے گزار رہا ہے ۔حاکم کی ایسی زندگی ہوگی تو فقیر اپنے فقر پر گھبرائے گا نہیں ۔انسان کی پہچان اس کی زبان سے زیادہ عمل سے ہوتی ہے ۔دین اسلام نے جہاں پر بہت سے اہم امور میں انسانوں کی رہنمائی کی ہے وہیں پر سیاسیات کے حوالے سے بھی اسلام نے اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کی ہے ۔کسی بھی سیاسی نظام میں حکمرانوں کے چنائو کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔اللہ تعالی نے حکمرانوں کے اوصاف اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی قرآن مجید میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیش قیمت باتیں ارشاد فرمائی ہیں ۔سورہ بقرہ میں اللہ تعالی نے جناب طالوت کی بطورِ حاکم تقرری کا ذکر کیا تو اس بات کو بیان کیا جناب طالوت صاحب علم اور صاحب طاقت تھے۔بنی اسرائیل کے لوگوں نے آپ کی تقرری پر اعتراض کیا کہ ان کے پاس مال کی فراوانی نہیں ہے تو ان کے نبی شموئیل علیہ السلام نے اس موقع پر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان کو چنا ہے اور ان کو علم اور طاقت میں بڑھایا ہے ۔قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حاکم وقت کو لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلے کرنے چاہیئے ۔قران مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حاکم وقت کو حکومت ملنے کے بعد اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔حکمرانوں کے اوصاف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جہاں پر وہ اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے رہیں ،وہیں پر وہ حسن خاتمہ کی دعا بھی کرتے رہتے ہیں ۔مثالی حکمرانوں کے اوصاف کا خلاصہ کچھ یوں نکلتا ہے کہ اسے مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے ۔عدل وانصاف ، علم ، طاقت ،نفسانی خواہشات پر قابو وغیرہ وغیرہ اور ساتھ ساتھ حکمرانوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے ،مثال کے طور پر حکمرانوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ انہیں بد اعتمادی کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔فتنہ وفساد کا قلع قمع یہ بھی حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔مثال کے طور پر جناب طالوت نے جالوت کے خاتمے کے لئے اور حضرت ذوالقرنین نے اہل علاقہ کو یاجوج و ماجوج کے فساد سے بچانے کے لئے ان کے اور یاجوج و ماجوج کے درمیان ایک لوہے کی دیوار کو کھڑا کردیا جس پر نہ وہ چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی نقب لگا سکتے تھے ۔حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انہیں معیشت کی بڑھوتری کیلئے اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرنا چاہیے ،اسی طرح زکواة ،نماز،اور امر باالمعروف ونہی عن المنکر کے فروغ کے لیے بھی کوشاں رہنا چاہیے ،اسی طرح قتل ، زنا ،شراب،چوری،اور بہتان تراشی جیسے قبیح جرائم کے خاتمے کے حدود کا جو نظام اللہ تعالی نے عطا کیا ہے اگر اس کو معاشرے میں لاگو کر دیا جائے تو معاشرے سے ہر قسم کے جرائم کا خاتمہ ہوسکتاہے ۔قران کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات پر خلفائے راشدین نے پوری طرح عمل کیا اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں ادا کیا۔چنانچہ آج بھی ان کو حکمرانوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔عصر حاضر کے مسلمان حکمرانوں کو بھی قرآن وسنت اور خلفائے راشدین کے کردار سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے تاکہ وہ مثالی حکمران بن سکیں اور مسلمان معاشرے بھی امن وسکون کا گہوارہ بن سکیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمارا پیارا ملک ہے،جس کو ایک طویل اور لمبی سیاسی جد وجہد اور بے شمار قربانیاں دینے کے بعد حاصل کیا گیا تھا لیکن بد نصیبی سے پاکستان میں بہت سے سیاسی اور معاشی بحران ایسے ابھرتے ہیں جن کی وجہ سے ریاست کے استحکام کے لیے مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پاکستان بلاشبہ ایک اسلامی ،فلاحی،اور نظریاتی ریاست ہے،جس کا قیام اللہ تعالی کی حاکمیت کے عہد کے ساتھ ہوا تھا ۔پاکستان کا آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی کی ہے۔۔پاکستان کی بقا اور استحکام کے لیے کوشاں رہنا جہاں ایک قومی ذمہ داری ہے, وہیں ملی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ایک فریضہ بھی ہے جس کو انجام دینے کے لیے پوری قوم کو متحد اور منظم رہنا چاہیے ۔خلافت راشدہ کے تیس سالوں کے علاہ باقی اب تک کی ایک ہزار چار سو سال کی تاریخ کا بیشتر حصہ بادشاہوں اور شہنشاہوں سے بھرا پڑا ہے کھبی وہ امیر المومنین کہلائے کبھی ملک،کبھی سلطان کبھی خلیفہ،کبھی شہنشاہ معظم ،کبھی نواب اور آج کل کی اصلاح میں جمہوری حکمران لیکن خوئے سلطانی اور انداز شہنشاہی جو کل تھے وہی آج بھی ہیں،صرف وقت کے ساتھ ساتھ عنوانات بدلتے ہیں،اج کل کے جمہوری دور کے بادشاہوں نے باالخصوص مسلمان ملکوں میں برائے نام جمہوریت رائج کی ہے وہاں پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے اور وہ اپنے آپ کو وطن اور ملک کا اکلوتا محافظ سمجھتے ہیں،وطن کے نام سیاست کرتے ہیں اور بالعموم وطن ہی کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہتے ہیں ۔ان جمہوری بادشاہوں کے خلاف بولنا گویا وطن کے خلاف بولنا سمجھا جاتا ہے ۔بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ امکانات امیر اور طاقتور کے حق میں جا رہے ہیں،جن کی پشت پر قانونی ، سیاسی،کاروباری،اور میڈیا کے سر کردہ افراد ہوتے ہیں،اس کے باوجود اگر ہم یقین محکم اور عزم مصمم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں اور حوصلہ سے کام لیں تو بازی جیت سکتے ہیں ۔پاکستان میں غریب کو سبسڈی دی جائے کیونکہ انہیں تحفظ کی ضرورت ہے،پاکستان میں امیر طبقے کو تحفظ نہ دیا جائے اور نہ ہی انہیں سبسڈی ملے۔ائی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کی اس بات سے کوئی بھی پاکستانی اختلاف نہیں کرسکتا کہ ہماری تمام معاشی خرابیوں کی جڑ اشرافیہ کا ٹیکس نہ دینا اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ائی ایم ایف کی سربراہ نے ہمارے معیشت کو لاحق مرض کی درست تشخیص کی ہے جس سے کوئی بھی پاکستانی انکار نہیں کر سکتا ۔ہمارے حکمران طبقات کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ وہ اپنے عوام کی اکثریت کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں،یہ معمول پاکستان بننے کے بعد سے ہی چلا آرہا ہے،یہ وہی طبقات ہیں جو پاکستان سے زیادہ آپنے بیرونی آقائوں کے وفادار ہیں کیونکہ ان کی بقاء کا انحصار بھی انہیں پر ہے۔سچ پوچھیں تو پاکستان بنا ہی ان کے لئے تھا۔

مزید پڑھیں:  ''دوحہ طرز مذاکرات'' سیاسی بحران کا حل؟