سنگین ہوتا مسئلہ

افغانستان سے جدید امریکی اسلحہ کی پاکستان اسمگلنگ اور ٹی ٹی پی کا سکیورٹی فورسز اور پاکستانی عوام کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال افغان عبوری حکومت کا اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے کے دعوئوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پینٹاگون کے مطابق امریکہ نے افغان فوج کو کل427,300جنگی ہتھیار فراہم کئے جس میں 300,00 انخلا کے وقت باقی رہ گئے۔ اس بناء پر خطے میں گزشتہ دو سالوں کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا۔دوسری جانب مشکل امر یہ ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی میں گٹھ جوڑ جاری ہے خیال کیا جاتا ہے کہ افغان طالبان حکومت نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔ادھر پاکستان نے اقوام متحدہ کے ایک پینل پر زور دیا ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) ملک میں دہشت گرد حملوں کے لیے کس طرح جدید ہتھیار حاصل کر رہی ہے۔دریں اثناء افغانستان کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تقریباً 40 دہشت گردوں کو گرفتار کرکے ملک کی مختلف جیلوں میں قید کیا ہے، کابل ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالمتین قانی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص یا گروہ جو ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا باعث بنے گا اس کی نشاندہی کی جائے گی اور اسے گرفتار کیا جائے گا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اب کوئی گروپ سرگرم نہیں ہے، ہمارے پاس کالعدم داعش کے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اور تقریباً 35سے 40کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد ہمارے زیر حراست ہیں۔افغانستان میں دہشت گردوںکے پاس موجود جدید امریکی اسلحہ پاکستان کے لئے خطرہ اور افغان عبوری حکومت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے لئے بھی بڑے امتحان سے کم نہیں اس لئے کہ امریکہ ہی کا ورثہ جدید اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تینوں ممالک اس ضمن میںمل بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالیں جو تینوںکے لئے قابل قبول ہو۔یہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جس کی پاکستان کی جانب سے بار بار نشاندہی ہوتی رہی ہے نیزپاکستان متعدد بار افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال ہونے کے شواہد بھی فراہم کر چکا ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے قابل اعتماد اقدامات کا انتظار ہے پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز جدید ترین اسلحے کے استعمال کے ساتھ ہوا جس کا توڑ اور برابر کا اسلحہ ہماری پولیس کے پاس نہ ہونے کے باعث اور خصوصاً رات کو دیکھنے والے جدید آلات کی عدم موجودگی پریشانی کا باعث امر رہا اگرچہ پولیس اور سی ٹی ڈی ٹی کو بھی جدیداسلحہ دینے کا دعویٰ تو کیا گیا لیکن غالباً حقیقت اس کے برعکس ہے اگرا یسا نہیں بھی توبھی من حیث المجموع پولیس کے پاس معمول کے مطابق بھی ایسا قابل اعتماد اسلحہ اور سازو سامان موجود نہیں کہ اس پر سخت حالات میں بھروسہ کیاجا سکے جس کے باعث دہشت گردوں کے مقابلے اور ان کو جہنم واصل کرنے کے عمل میں پولیس اور دیگر سیکورٹی کے اداروں کا کافی جانی نقصان سامنے آتا ہے بعض اوقات تو یہ جہنم واصل عناصر کی تعداد کے تقریباً برابر بھی ہو جاتا ہے اب تو کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ سیکورٹی فورسز کو سنائپرز سے نشانہ نہ بنایا جاتا ہواس صورتحال کی ذمہ داری صرف افغان عبوری حکومت ہی پر اس لئے عائد نہیں ہوتی کہ یہ اسلحہ امریکیوں کی میراث ہے جسے انخلاء کے وقت انہوں نے ساتھ نہ لے جا کر یاتلف نہ کرکے ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا یہ کام خاص مشکل ضرور تھا لیکن کم از کم اس کی سعی ہی ہوتی اور افغان فوجیوں سے اسلحہ واپس لے کر تلف کیا جاتا تو صورتحال یہ نہ ہوتی چونکہ بہت بڑے پیمانے پر یہ اسلحہ اب بھی افغانستان میں موجود ہے اور خود امریکی حکام کے بتائے گئے اعداد و شمار سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ہے ایسے میں اس اسلحہ کے مزید دہشت گرد عناصر ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ داعش کے ہاتھ لگنا بھی بعید نہیں نیز بھتہ خور گروہوں ‘ اغواء برائے تاوان کے گروہوں اور دیگر قانون شکن عناصر کی جانب سے بھی اس کے حصول و استعمال کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا یہ سارے خدشات اس امر کے متقاضی ہیں کہ پاکستان امریکہ ا ور افغان عبوری حکومت اس بارے میں مشترکہ لائحہ عمل طے کرکے جدید اسلحہ کے پھیلائو کو روکیں اور جن عناصر کے پاس یہ اسلحہ موجود ہے ان کو غیرمسلح کرنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی بنائیں اور اگرطاقت کا استعمال کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے جہاں مشکل ہو وہاں فضائی قوت کا استعمال کرکے ان عناصر کے ٹھکانوں اور اسلحہ کے مراکز کی تطہیر کی جائے ۔ اس مقصد کے لئے جتنے جلد اقدامات کئے جائیں گے اتنا بہتر ہو گا جہاں تک افغان وزارت داخلہ کے بیان کا سوال ہے افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں موجود دہشت گردوں میں سے محض چالیس افراد کی گرفتاری بے معنی عمل ہے افغان عبوری حکومت کوان عناصر کے ٹھکانے ختم کرنے کے لئے کارروائی کرنی چاہئے تب جا کر ہی ان کی نظم متاثر ہو گی اور وہ منصوبہ بندی کے ساتھ سرحد پار دہشت گردی کے قابل نہیں رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں