یکے بعد دیگرے سزا

سائفر کیس میں تحریک انصاف کے بانی سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے دونوں کودس دس سال قید بامشقت کی سزاسنا دی ہے بانی چیئرمین تحریک انصاف نے گزشتہ روز عدالت میں 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرتے ہوئے سائفر کو عوامی اجتماع میں لہرانے اور ازاں بعد اسے گم کرنے کے الزامات کو تسلیم کرکے اپنے حلف کی خلاف ورزی کو تسلیم کیا ‘ جس کے بعد فاضل جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس کی سماعت کی مختصر فیصلہ سناتے ہوئے دونوں ملزموں کو دس دس سال قید بامشقت کی سزا سنا دی یاد رہے کہ اس مسئلے کے سامنے آنے کے بعد یہ سائفر ایک غیر ملکی جریدے میں شائع ہوگیا تھا جس پرملک میں بڑی لے دے ہوئی دریں اثناء توشہ خانہ ریفرنس میں بھی نہ صرف عمران خان بلکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کوبھی14/14سال قید بامشقت سزا سنا دی گئی ہے جبکہ دونوں میاں بیوی کو کروڑوں روپے کے علیحدہ علیحدہ جرمانے بھی عاید کردی گئی ہے جوپاکستانی سیاست میں ماضی میں ہونے والے بعض لیڈروں کو دی جانے والی سزائوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے تاہم ہر مقدمے کی نوعیت الگ الگ ہے ‘ اور اس حوالے سے بہت سے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے البتہ بانی چیئرمین تحریک انصاف اوران کی اہلیہ کے خلاف مقدمات کی نوعیت ایک لحاظ سے علیحدہ یوں ہیں کہ دونوں مقدمات میں تحریک انصاف کے وکلاء جس قسم کے تاخیری حربے استعمال کرتے آئے ہیں ان کاملزموں(اب مجرموں) کوکوئی فائدہ تو نہیں ہوا بلکہ الٹا نقصان ہی ہواہے جو ملکی عدالتی نظام پربھی کچھ سوالات ضرور اٹھاتا ہے اور پارلیمنٹ کوآنے والے دنوں میں وکیلوں کی جانب سے اس قسم کے تاخیری حربوں کو روک لگانے اور مقدمات کوایک مخصوص مدت کے اندر اندربہر صورت تکمیل تک پہنچانے کے لئے قانون سازی کرنے پرسنجیدہ توجہ دینی ہوگی ‘ اس لئے کہ اس قسم کی صورتحال کے بارے میں انگریزی کاایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے کہ ”انصاف میں تاخیر ‘ انصاف سے انکارکے مترادف ہے ”۔ خود اسلامی نظام عدل وانصاف کا جائزہ لیا جائے تواسلام عدل و انصاف کی فراہمی میں تاخیری حربوں میں یقین نہیں رکھتا بلکہ سرعت کے ساتھ سائلین کو انصاف دینے کانہ صرف درست دیتاہے بلکہ لاتعداد ایسے واقعات اسلامی تاریخ میں موجود ہیں جن میں خلفائے وقت کے خلاف بھی اپنے اپنے دور کے قاضیوں نے بلا خوف و خطرفیصلے صادرکرکے انصاف کابول بالا کیااور ان فیصلوں کو متعلقہ افرادنے صدق دل سے تسلیم بھی کیا’ بعد میں آنے والے ادوار میں دنیا بھرمیں جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہوئیں وہاں بھی ایسے لازوال فیصلوں سے اعلیٰ عہدیداروںکے خلاف غیر مسلم رعایا کے حق میں فیصلے آنے سے لاتعداد غیرمسلموں کے مسلمان بن جانے کے واقعات بھی تاریخ کاحصہ ہیں جبکہ برصغیر میں عدل جہانگیری اور شیرشاہ سوری کے واقعات بھی اسلامی عدل وانصاف کے درخشاں باب ہیں ‘ البتہ انگریزوں کے ہندوستان پرقبضہ کے بعد انہوںنے آل انڈیاپینل کوڈ کانفاذ کرکے موجودہ عدالتی نظام مسلط کیا تواس کے بنیادی نکات ہی انصاف میں تاخیری حربے استعمال کرکے اسے دوحصوں میںتقسیم کیا یعنی فوجداری اور دیوانی جس کے بارے میں عام لوگ بھی بخوبی جانتے ہیں جہاں تک محولہ دونوں مقدمات کا تعلق ہے اگرچہ فی الوقت تو عدالتوں کی جانب سے ملزموں کی جانب سے بے پناہ تاخیری حربوں کواستعمال کئے جانے کے بعد انہیں قانون کے تحت سزائیں سنا دی گئی ہیں تاہم سیاسی رہنمائوں اورقانونی ماہرین اس ضمن میں مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں بعض کاخیال ہے کہ اپیل میںملزموں(اب مجرموں) کوریلیف کے امکانات واضح ہیں جبکہ دوسرا نقطہ نظریہ یہ ہے کہ خود ان کیسز میںملوث ہونے والوں نے 342 کے تحت الزامات کو تسلیم کرکے اپنے پیروں پرکلہاڑی مار دی ہے ‘ بہرحال یہ توآنے والے دنوں میں پتہ چلے گا کہ اپیلوں کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہیں ‘ آیا سزائوں کوبرقرار رکھتی ہیں ان میں کمی کرتی ہیں یا پھر سزا کالعدم کرتے ہوئے معافی دینے کا راستہ اختیار کرتی ہیں اس کے لئے ظاہر ہے آنے والے دنوں میں جو کچھ بھی ہو گا عوام کے سامنے آجائے گا ۔ جبکہ امید ہے کہ اگر اپیلیں جمع کرادی گئیں تووکلاء صاحبان اپنے سابقہ روایتی تاخیری حربوں کوتج کراپنے موکلین کے لئے جلد از جلد انصاف کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کریں گے۔

مزید پڑھیں:  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی