قابل غور امور

اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ دوران احتجاج لوگوں کو تکلیف اور اذیت پہنچانا جائز نہیں، مسلمان کی جان، مال اور عزت و آبرو اللہ کے ہاں اس کے گھر خانہ کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیر صدارت اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق کچھ عناصر کے مسلح اقدامات متفقہ فتوے، اعلامیہ پیغامِ پاکستان کے خلاف ہیں، مسلح اقدام صرف ریاست کا استحقاق ہے اور خودکش حملے شریعت کے منافی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے احتجاج کے شرعی طریقے سے متعلق صدر کے ریفرنس کے متعلق تفصیلی ضابطہ اخلاق کی منظوری دیدی اور کہا کہ کاروبارِ مملکت اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلایا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ شہریوں کی جان، مال اور عزت وآبروکی حفاظت کی جائے، روٹی، کپڑا، مکان کی عزت’ سہولت سے سستے داموں فراہمی یقینی بنائی جائے، عوام کے حقوق دینے میں ناکام حکومت دنیاوی، اُخروی اعتبار سے مجرم تصور ہوگی۔اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کی زحمت تو درکنار ان پر توجہ دینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی جاتی لیکن اس کے باوجود بہرحال ان کی سفارشات میں عوام اور حکومت دونوں کو اہم امور کے بارے میں دینی نقطہ نظر سے شعور و آگہی ہوتی ہے اور رہنمائی ملتی ہے ان کے تازہ اعلامیہ کی روشنی میں حکومت کے حوالے سے جن عوامل اور معاملات کا تذکرہ کیاگیا ہے اس کی روشنی میں ہمارے سابق و موجودہ اور خاص طور الیکشن کے بعد جس کسی کی بھی حکومت بنے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کو اس سے آگاہ ہونا چاہئے کہ ان کی ذمہ داریاں کیا کیا ہیں جن کو پورا کرنے میں ناکامی بہرحال اپنی جگہ کم از کم ان کو پورا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے وہ مکلف ضرور ہیں اسی طرح عوام کو بھی اس امر پر متوجہ ہونا ہو گا کہ محولہ امور کو پورا کرنے کی استعداد کی حامل جماعتوں اور امیدواروں کا چنائوکیا جائے تاکہ وہ ایسے افراد کو اختیار سونپنے کی ذمہ داری نبھائیں جن کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہ محولہ معیار کے مطابق حکومت چلانے کی سعی کریں گے ،کامیابی و ناکامی الگ بات ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نظام کی تبدیلی ناممکن نہیں تو نہایت مشکل امر ضرور ہے اس کے باوجود خلوص سے جدوجہد کرنے والے مخلص و دیانتدار لوگوں کا چنائو ووٹروں کی ذمہ داری ہے جن کو اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے نبھانے کے بعد اس امر کی توقع رکھنی چاہئے اور اگر وہ خوداپنے ہی ہاتھوں دیوار کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھنے کے مرتکب ہوں گے تو پھر اس طرح کی حکومتیں ہی نہیں بنیں گی جس طرح کی حکمرانی کا ہم بار بار مشاہدہ کرتے آئے ہیں،اسلامی نظریاتی کونسل نے احتجاج کے طریقہ کار کے حوالے سے جو لائحہ عمل دیا ہے اور جس طرح کی رہنمائی دی گئی ہے وہ شریعت اور ملکی قوانین ہر دو کی پابندی کا متقاضی ہے خاص طور پر بطور مسلمان احتجاجیوں کوکن امور کا خیال رکھنا چاہئے اور ان کی حدود و قیود کیا ہیں اسے مد نظر رکھا جائے تو دوسروں کیلئے تکلیف کا باعث بننے سے بچا جا سکے گا ساتھ ہی قومی و نجی املاک کا بھی تحفظ ہو گا جن کونشانہ بنا کر ہی احتجاج کو مؤثر اور کامیاب بنانے کا اب تک رواج چلا آرہا ہے ساتھ ہی جس طرح جھوٹی افواہیں پھیلانے اور پراپیگنڈے کا عالم ہے اس سے تو اللہ کی پناہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ تمیز کرناہی مشکل ہو گیا ہے ،محولہ تمام عوامل معاشرے کے توازن کوبگاڑنے اور بعد کی کیفیت بڑھانے کے با عث امور ہیں جن سے اجتناب دینی و ملی اور ا خلاقی فریضہ ہیں جن کا خیال رکھ کر ہی کسی کو ایذا دینے سے بچا جا سکتا ہے ،ان سفارشات پرعملدرآمد کے حوالے سے متعلقہ اداروں کو شعور و آگہی دینے کے ساتھ عملی اقدامات کی بھی ذمہ داری سنجیدگی سے نبھانی چاہئے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو ریاستی قوت سے روک کرخود ان کے اور دوسروں کی آزادی و حقوق کو محفوظ بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرناچاہئے۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم