بچوں کو لے لگانے والوں کیخلاف کارروائی

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ای سگریٹ اورویپس کے استعمال کے تدارک اور خاص طور پر نو عمر بچوں کو ان مصنوعات کی فروخت میں ملوث چار کیفے منیجر و ں کی گرفتاری سنجیدہ اقدام ہے،امر واقعہ یہ ہے کہ ہائی سکول کے بچوں کو ہی بطور خاص نشانہ بنا کر مستقل گاہک بنا دیا جا تا ہے، صرف ای سگریٹ اورویپس ہی سپلائی کرنے اور اس کے استعمال کے سہولت کار کیفیز ہی میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ جتنے بھی منشیات کے سوداگر مافیا ز ہیں ان سب کانشانہ اس عمر کے بچے اور ناسمجھ نو جوان ہوتے ہیں جن کو ایک ہی مرتبہ کسی طریقے کوئی زہر چکھا دیا جا ئے تو بدقسمتی سے وہ زندگی بھر اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پا تے، ایسے میں والدین پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں سے خود کو باخبر رکھیں اور ان کو حتیٰ المقدور ایسی صحبت سے دور رکھنے کی سعی کریں، اس کے باوجود چونکہ اب اس طرح کی صورتحال عام ہوگئی ہے اور سکو ل کے بچوں سے لیکر یونیورسٹی کے طالب علموں تک ہر کوئی خطرات کی زد میں ہے ستم بالا ئے ستم یہ کہ اب تو سکولوں اور کالجوں و جامعات کی طالبات تک ہر کوئی اس زہر کی طرف متوجہ ہے اور تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پر منشیات کا استعمال ہورہاہے جس میں سرکاری جامعات کے طلبہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، اسی طرح سرکاری و نجی ہاسٹلز میں مقیم طلباء وطالبات اس لعنت کا خاص طور پر نشانہ بھی ہیں اور شکار بھی۔والدین اگر تھوڑی سی توجہ کے ساتھ اپنے بچوں کا رویہ انداز اور ان کے کھانے پینے پر توجہ دیں تو وہ بروقت آ گاہ ہوسکتے ہیں، بچے کے چہرے اور آ نکھوں کی کیفیت پر غور کرکے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، محولہ قسم کا نشہ اگرچہ ہلکا ہوتا ہے لیکن اس کا شکار ہو نے کا آ سان طور پر اندازہ اس طرح سے لگ سکتا ہے کہ بچے کی بھوک ختم ہو جاتی ہے جس کی وجہ ای سگریٹ پینے سے ان کے معدے میں گیس کا بھر جانا ہوتا ہے، شک گزرنے پر یا ویسے بھی اس عمر کے بچوں کی نگرانی کے طور پر ان کی غیر موجودگی میں غیر محسوس طریقے سے ان کے بستے، لیپ ٹاپ کے بیگ، بستر اور تکیہ اٹھا کر دیکھنے اور سونگھنے سے کافی معلومات مل سکتی ہیں یا کم از کم اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے، انتظامیہ نے جو احسن کارروائی کی ہے اسے تسلسل سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ جتنا ہوسکے نوجوانوں کو اس لعنت سے بچایا جاسکے، اس طرح کے امور میں ملوث ریسٹورنٹس اور مراکز کو بھاری جرمانے اور سیل کرنے کی ضرورت ہے، توقع کی جانی چاہیے کہ انتظامیہ اس عمل کو ذمہ داری کے ساتھ جاری رکھے گی اور اس امکان کو حتیٰ الامکان محدود کیا جائے گا کہ نوجوانوں کو اس طرح کے مواقع میسر نہ آ ئیں اور یہی زیادہ مؤثر طریقہ بھی ہے۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم

رہزنی موبائل چھیننے کی بڑھتی وارداتیں
صوبائی دارالحکومت پشاور میں بالعموم اور تھانہ پہاڑی پورہ کے علاقے میں بالخصوص رہزنی اور موبائل چھیننے کے واقعات میں اضافہ بتایا جاتا ہے، تھا نہ پہا ڑی پورہ کی حدود میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی کارکنوں کے موبائل چھیننے کے واقعات ہوئے اور ان کو نقدی سے محروم کیا گیا، گزشتہ روز بھی علی الصبح تھا نے کے بالکل سامنے موبائل چھیننے اور نقدی لوٹنے کی واردات ہوئی مگر پولیس روزنامچہ درج کرنے سے بڑھ کر کوئی کارروائی نہیں کرتی ،ایک ایسے وقت جب انتخابی سرگرمیوں کے سلسلے میں صبح و شام اور رات گئے معمول سے زیادہ آ مدورفت ہورہی ہے جس کا تقاضا ہے کہ پولیس چوکنا ہو محولہ قسم کے واقعات لمحہ فکر یہ ہیں جس کا سی سی پی او کو بطور خاص نوٹس لینا چاہئے ،پولیس کی جانب سے تساہل برتنے کے روئیے سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ اعلیٰ افسران مصروفیات یاکسی اور وجہ سے صورتحال پر پوری طرح نظر نہیں رکھ پارہے ہیں جس کے باعث تھانوں کی پولیس گشت اور صورتحال پر نظر رکھنے میں تساہل کا شکار ہو رہی ہے جس کے باعث جرائم میں اضافے کا خطرہ ہے، اس طرح کی صورتحال میں عوام میں احساس عدم تحفظ میں اضافہ فطری امر ہے جس کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ،پولیس چیف کو صورتحال سے بے خبر اور غافل نہیں ہونا چاہیے اور صورتحال کا نوٹس لے کر رہزنوں کی گرفتاری اور چھینے گئے موبائل فونز کی برآمد گی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کی سختی سے ہدایت اور عملدرآمد پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اس صورتحال کے مکمل تدارک کے اقدامات پر توجہ دی جانی چاہیے۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں