خیبرپختونخوا میں زرعی ترقی کے مواقع اور امکانات

قدرت کی طرف سے مواقع اور امکانات کی کبھی کمی تھی اور نہ ہوگی بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کھوجنے والے بن جائیں خیبر پختونخوا قدرتی وسائل معدنیات اور سیاحت کے مواقع سے ہی مالامال نہیں بلکہ اراضی کم ہونے کے باوجود بھی زراعت کے انمول مواقع موجود ہیں صوبے کے ایسے حصوں میں جہاں کی زمین بے آ ب موسم سرد بنجر اراضی اور رقبہ محدود ہے مگر اس کے باوجود بھی مواقع کی کمی نہیں بس تھوڑی سی توجہ اور کوشش ہو تو اپنی مدد آپ سے خود روزگار کے مواقع کی بھرمار ہے چند روز پہلے ہی آ پ نے روزنامہ مشرق پشاور کی اشاعت میں ضلع خیبر کے علاقہ جمرود میں مشروم کی کاشت کے کامیاب تجربے کے بارے میں پڑھا ہوگا کہ کس طرح محکمہ زراعت سے مل کر نوجوان نے مشروم کی کاشت کی اور انیس لاکھ روپے کمائے ،جمرود کی بنجر اراضی پر کوئی بھی فصل اچھی نہیں اگتی مگر مشروم کی کاشت کا تجربہ نہ صرف احاطے کی کیاری میں کامیاب ہوا بلکہ کمرے کے اندر بھی مشروم اگانے کا تجربہ کامیاب رہا۔مشروم ایک نقد آور فصل ہے، مشروم کا استعمال بڑے بڑے ہوٹلوں میں ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ ادویات کا بھی جزو ہوتاہے بیر ون ملک اس کا استعمال بھی زیادہ ہے اسے تجارتی طور پر کاشت کی جائے تو آ مدن اور زرمبادلہ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔صوبے کے سرد موسم والے علاقے زعفران کی کاشت کیلئے نہایت موزوں مانے جاتے ہیں ،لوئر اور خاص طور پر اپر چترال میں زعفران کے بلب ایران سے لا کر لگا نے کا کامیاب تجربہ توجہ کا متقاضی امر ہے، اپر چترال کے علاقہ چرون اور لوئر چترال کے علاقہ دروش اور گرد ونواح میں زعفران اگانے کے کامیاب تجربے حوصلہ افزاء امر ہے، اپر چترال کے علاقے خاص طور پر زعفران کی کاشت کیلئے نہایت موزوں ہیں جہاں کی زمین درجہ حرارت اور موسم اس قدر موافق اور موزوں ہیںکہ سال میں زعفران کی تین سے چار فصل ممکن ہے ،یہ تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ زعفران کس قدر نافع فصل ہوتی ہے اس کی فصل اگانے کیلئے زیادہ زمین کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بس پہلی مرتبہ بلب یعنی بیج کی خریداری پر خرچ آ تاہے، اس کے بعد بلب کی تعداد میں خود بخود اضافہ ہوتا جاتا ہے ،زعفران کے ڈنٹھل اور پھول دونوں کی الگ قیمت لگتی ہے ،زعفران کھانے سے لے کر ادویات تک میں استعمال ہوتا ہے اور خوب قیمت لگتی ہے ،اسی طرح چترال سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں جنگلی زیتون کے پودوں کی پیوند کاری کرکے زیتون کی پیداوار ممکن ہے، وزیر ستان میں ایک نوجوان نے ذاتی طور پر اس کاکامیاب تجربہ کیا ہے لیکن ان کی سرکاری دستگیر ی نہیں کی گئی اس کے باوجود وہ کامیابی سے اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں ان کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور یہ سفر جاری ہے، محکمہ جنگلات وزراعت اس زرین موقع کو بڑھا نے اور تعاون پر توجہ دے تو چترال سے لیکر وزیر ستان تک مواقع ہی مواقع ہیں ان دونوں محکموں کا جواز ہی اس طرح کے تجربات اور مقامی سطح پر اس کی سرپرستی ہے ورنہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور زرعی اراضی پر کنکریٹ کے پہاڑ ویسے بھی کھڑے ہو رہے ہیں۔صوبے کی زراعت کو ماحولیاتی تبدیلی کی بناء پر جس تباہی نما چیلنج کا سامنا ہے یہ جہاں خطرے کی گھنٹی ہے وہاں مواقع بھی ساتھ لانے کا باعث ہے ،جامعہ زرعیہ پشاور کے ماہرین نے اس صورتحال کو صوبے میںبارشوں میں اضافے کے باعث چاول کی کاشت کیلئے موزوں بتایا تھا مگر اس کے بعد اس بارے کسی حکومتی کاوش اور محکمہ زراعت کے کسی اقدام کا علم نہ ہوسکا۔معلوم نہیں کہ حکمران اور سرکاری محکمے کیا سو چتے ہیں اور آ نے والے دور کے چیلنجوں کے حوالے سے ان کی سوچ اور اقدامات کیا ہیں محولہ مواقع کا جائزہ لیا جائے تو حوصلہ افزاء بات یہ سامنے آ تی ہے کہ صوبے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کار یوں کے باوجود مواقع بھی موجود ہیں جن پر توجہ دی جائے تو ان سے مستفید ہوا جا سکتا ہے ،دنیا کے دیگر ممالک میں اس کے مناظر کی ویڈیو ز دیکھ کر رشک آ تاہے کہ کس طرح وہ انتہائی ڈھلوان اور ایستادہ اراضی کو خوبصورتی کے ساتھ تہہ قائم کرکے کام میں لاتے ہیں ،چین میں پہاڑ و ں پر چائے کی کاشت اور ان کیاریوں میں کام کرنے والی موٹر سائیکل سوار خواتین کی جانفشانی اور مہارت دیکھ کر رشک آ تاہے کہ کس طرح وہ ان پر پیچ عمودی اور چڑھا ئی والے راستوں پر بائیک چلاتی ہیں ،ڈبل سواری اور چنیدہ چائے کی بھری بوریاں لاد کر قطار در قطار اترتی ہیں، کیا ہمارے جوان ان نرم و نازک دوشیزاؤں سے بھی کمزور ہیں، نہیں، مگر افسوس ہمارے ہاں محنت اور جفاکشی کا رواج نہیں خواتین بہر حال سماج اور معاشرے کی قیدی ہیں ان سے کوئی گلہ ہی کیا کرے۔جس طرح کی پہاڑی ڈھلوانی زمین پر دنیا میں زراعت ہوتی ہے اس طرح کی پہاڑی ڈھلوانی اراضی تو چھوڑ یں ہمارے ہاں تو میدانی علاقوں کی کمی نہیں اور محولہ قسم کی اراضی کی بھی کمی نہیں بس تھوڑی سی توجہ اور منصوبہ بندی درکار ہے۔ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں اب بھی روایتی فصلوں کی روایتی فرسودہ طریقوں سے کاشت ہوتی ہے، آ بپاشی کے جدید تقاضوں کو اختیار کرنے کی کوشش ہی نہیں ہوتی، پانی کا ضیاع کوئی عیب ہی نہیں بلکہ اس کا تصور ہی نہیں کہ کم پانی سے زراعت کی جائے ،جب ایسا رجحان ہوگا تو پھر زراعت ترقی نہیں تنزلی کی جانب گامزن ہو گی اور بدقسمتی سے ایساہی ہورہاہے۔دنیا میں زراعت میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور جدید زراعت اختیار کر نا ہماری دسترس سے باہر ہی سہی لیکن اس طرف پیش رفت تو ہونی چاہیے، اب ملک کے بڑے ادارے کی جانب سے ملک میں وسیع پیمانے پر اراضی حاصل کرکے زراعت شروع کر نے اور زرعی پیداوار میں اضافے کی جو ذمہ داری مکلّف نہ ہونے کے باوجود بھی اٹھا نے کا عزم کیا گیا ہے اسے اگر چہ جس کا کام اسی کو ساجھے قرار دینے کی پوری گنجائش ہے اور ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر یہ بھی انہوں نے کرنا شروع کیا تو باقی کیا کریں گے، کسانوں کا کیا ہوگا؟، بہر حال جملہ ہائے معترضہ کے باوجود بھی توقعات ہیں کہ ان کے پاس وسائل کی کمی نہیں اور نہ ہی ان کو مطلوبہ سہولیات سے انکار کی گنجائش ہے جس کے بعد اب بس کر دکھانے کی کسر ہی رہ جاتی ہے۔اصولی طور پر تو یہ سرکاری طور پر کرنے کا کام ہے، محکمہ جاتی ذمہ داری بھی اپنی جگہ جس کا کام اس کو ساجھے کا محاورہ بھی ایک طرف بس ضرورت اس امر کی ہے کہ جس کام کا بیڑا رضا کار انہ طور پر اٹھا یا گیا ہے اسے پورا کرکے دکھایا جائے کہ پاکستان واقعی زرعی ملک ہے اور اس سے استفادہ مشکل نہیں بس تھوڑی سی توجہ اور کوشش کی ضرورت ہے۔اگر یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تواس سے ملک وقوم کا فائدہ ہوگا ،ناکامی کی کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ مفادات کو پرے رکھا جائے ،زراعت کی ترقی کیلئے یہ غیر محکمہ جاتی کاوش کافی نہیں وزارت زراعت یہ کام اصطلاحی محکمہ زراعت پر نہ چھوڑے بلکہ زرعی ترقی کی طرف متوجہ ہو ملک میں تعمیرات کے شعبے کی طرح زراعت کو بھی منفعت کا حامل شعبہ بنانے کی ضرورت ہے، مواقع کی کمی نہیں ،زمین ،پانی، مناسب آ ب وہوا ،موزوں موسم سب موجود، زرعی ملک ہونے کا بھی دعویٰ مگر عالم یہ کہ آ لو ،پیاز، ٹماٹر، گندم، دالیں سبزیاں باہر سے منگوانی پڑتی ہے۔
کچھ علاج اس کا اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔
مرض تو لاعلاج نہیں افسوس اس بات کا کہ ہمارے چارہ گر ہی نہیں چاہتے کہ زراعت ترقی کرے اگر ہم نے بقاء کی جنگ میںکامیاب ہونا ہے تو خود کو بدلنا ہوگا اپنی سوچ ہی نہیں اپنے رویوں پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے، سب سے بڑھ کر قومی دیانت اور ایمانداری اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ایمان داری ودیانت داری ہی محنت و کوششوں کی کا میابی کی ضمانت ہے۔
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میںدل یا شکم۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ ، عوام اور دستورِ مظلوم