محکمہ تعلیم میں احتساب

نگراں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جسٹس ریٹائرڈ سید ارشد حسین شاہ کی زیر صدارت محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے اجلاس میں صوبہ میں حال ہی میں شروع کردہ خواندگی مہم کامیاب بنانے اور اس کے زیادہ سے زیادہ اہداف کے حصول کے لئے ضم اضلاع کے ان سکولوں میں ناپید سہولیات کی فراہمی کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کام کرنے کے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں انہوں نے متعلقہ حکام کو یہ بھی ہدایت کی کہ اسکولوں میں ناپید سہولیات کے بارے میں ضلعی ایجوکیشن افسران کی طرف سے تیار کردہ ابتدائی رپورٹ کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ منظور شدہ پی سی ون اور نقشہ جات کے مطابق ان سکولوں میں سہولیات کا جائزہ لیا جائے اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ آیا یہ سہولیات منظور شدہ پی سی ون اور نقشے میں شامل تھیں یا نہیں تاکہ پی سی ون میں شامل ہونے کے باوجود برائے سہولت تعمیر نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ ٹھیکیداروں اور حکام پر ذمہ داری عائد کرکے ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔ نگران وزیر اعلیٰ کا دور اگرچہ قریب الاختتام ہے اور یہ بھی کہ اتنی مختصر مدت میں وہ سب اقدامات ممکن نہیں بنائے جا سکتے جس کی سعی ہو رہی ہے تاہم اس کے باوجود اس ضمن میں حتی المقدور مساعی احسن ہیں کم از کم اس ضمن میں معاملات کا جائزہ لے کر ان کو سدھارنے کی ابتداء ہی ہوتو آئندہ حکومت کے لئے اسے آگے بڑھانے کی آسانی ہو گی بشرطیکہ صوبے میں تعلیم کی ترقی اور سرکاری وسائل کے حقیقی مقاصد آنے والی حکومت کی ترجیحات میں حقیقی طور پر شامل ہو امر واقع یہ ہے کہ اب تک گزرنے والی ہر حکومت میں تعلیم کے شعبے کی اہمیت کے تذکرے اور اس میں بہتری و اصلاحات لانے کے دعوے اور وعدے تو بہت ہوتے رہے ہیں خاص طور پر ضم اضلاع اور پسماندہ علاقوں میں تو صورتحال بدتر کے زمرے میں آتی ہے نگران وزیر اعلیٰ کی جانب سے اس ضمن میں صورتحال کے ادراک کے طور پر جومساعی شروع کی گئی ہیں اور تازہ اجلاس میں انہوں نے اس ضمن میں جو ہدایت کی ہے اس ضمن میں جملہ معترضہ ہی یہ ہے کہ وقت کم ہے اور متعلقہ حکام کے پاس لیت و لعل کے درجنوں مواقع ہیں وگرنہ اگر حقیقت پسندانہ جائزہ اور رپورٹ سامنے آئے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکتا ہے محکمہ تعلیم میں کھلواڑ اساتذہ کی بھرتی سے ہی شروع ہوئی سیاسی بنیادوں پر بھرتی نااہل عناصر کو سیاست سے زیادہ اور تعلم سے کم دلچسپی ہوتی ہے بہرحال اس وقت جائزہ اس بات کا ہے کہ سکولوں میں سہولیات کی کیا صورتحال ہے اور جو سہولیات پی سی ون میں شامل تھیں اور اس پر حکومت کی طرف سے فنڈز بھی خرچ ہو چکے آیا وہ مہیا کی گئی ہیں یا پھر نہیں غالب امکان اس کا نظر آتا ہے کہ اس ضمن میں خانہ پری ہی کی گئی ہو گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ملی بھگت سے رقم ہڑپ کر لی گئی ہو گی پوری ایمانداری سے رقم خرچ کرکے سہولیات کی فراہمی کا معروضی حالات میں امکان نہیں اگر محکمہ تعلیم کا کوئی ایماندار افسر اور خدا ترس ٹھیکیدار نے ایسا کیا ہو تو یہ قابل تحسین بات ہو گی بصورت دیگر ان عناصر کے خلاف تحقیقات اورملی بھگت کرنے والوں کو بے نقاب کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزشت نہ کیا جائے اس طرح کے عناصر کے کڑے احتساب ہی سے سرکاری وسائل کے درست استعمال کی راہ ہموار ہو گی اور سکولوں میں سہولیات کی دستیابی ممکن ہوسکے گی۔توقع کی جانی چاہئے کہ جو بنیاد نگران حکومت چھوڑ کے جائے گی آنے والی حکومت اس بنیاد پر ایسی عمارت کھڑی کرنے کی سنجیدہ سعی کرے گی جس میں سرکاری وسائل کا درست و حقیقی مقام پر استعمال اور طلبہ و اساتذہ کو سہولیات کی فراہمی یقینی بن جائے اور ان کو ایسا ماحول ملے جس میں وہ سہولت کے ساتھ تعلیم و تدریس کر سکیں۔ گزشتہ ادوار میں اس ضمن میں جو غفلت اورملی بھگت ہو چکی ہے اس کا نہ صرف اعادہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس غفلت کی نشاندہی واصلاح کا فریضہ بھی نبھانے کی ضرورت ہے تب جا کر صوبے میں تعلیم کے معیار کی بہتری کی راہ ہموار ہو سکے گی سنجیدہ اقدامات اور تسلسل کے ساتھ نگرانی کے بغیر جوبھی کام کیا جائے اس کے وقتی اور لاحاصل ہونے کا امکان رہے گا اب تک جو کچھ ہوتا آیا ہے اس کی اصلاح ہی کافی نہیں آئندہ کے لئے ان حالات کا تدارک بھی ضروری ہو گا۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم