دبستان خیبر پختونخوا پر ایک طائرانہ نظر

ہمارے استاد محترم ‘ جن سے ہم نے اپنے کالج کے دور میں اردو زبان و ادب کے رموز سیکھے ‘ پروفیسر شرر نعمانی مرحوم کا ایک شعر یاد آیا آرہا ہے ‘ فرمایا
گلی گلی میں قیامت سی ایک برپا ہے
امیر شہر سے کہہ دیجئے سب اچھا ہے
ان کی کہی یہ بات آج کے سیاسی ماحول کی کتنی خوبصورت عکاسی کر رہی ہے ‘ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کا یہ شعر آنے والے ادوار میں کب کب اور کہاں کہاں ملکی سیاسی حالات پر یوں منطبق ہو گا کہ عقل دنگ رہ جائے گی ‘ آج ملک عزیز کی گلیوں میں سیاسی ماحول کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو جس قیامت کا تذکرہ محولہ شعر میں کیا گیا ہے وہ ایک حقیقت کا روپ دھارے ہمیں اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے ‘ تاہم آج ہمارا ارادہ ملکی سیاسی حالات کا تجزیہ کرنا نہیں بلکہ شاعر پاسبان عقل کو تنہا چھوڑ کر ادب پر بات کرنی ہے کیونکہ خالص ادبی کالم لکھے ایک عرصہ ہو گیا ہے اور اس دوران کچھ ایسی ادبی سرگرمیاں بھی سامنے آتی ہے جن کی وجہ سے دبستان خیبر پختونخوا ایک نئی کروٹ لیتا ہوا اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے جس سے آنکھیں موندنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے یوں ہوئی کہ پی ٹی وی پشاور سنٹر ایک عرصے سے پشاور میں ادبی سرگرمیوں سے خدا جانے کیوں آنکھیں بند کرکے چپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے خاموش تھا’ حالانکہ پہلے وہ ہر دو چار ماہ بعد ہی سہی یا پھر خاص دنوں یعنی یوم پاکستان ‘ عید میلاد النبی ۖ اور محرم الحرام کے حوالے سے شعری نشستوں کا اہتمام کرکے ”اپنے ہونے کا پتہ” دے دیتا تھا لیکن کچھ عرصے سے اس”محاذ” پر بھی ہمارے اپنے ایک شعر کے مطابق”اک طویل خاموشی جیسی جھیل خاموشی ‘ کی تفسیر بن کر رہ گیا تھا ‘ مگر گزشتہ دنوں ایک خوشگوار انگڑائی لیتے ہوئے قومی نشریات کا یہ ادارہ اچانک جاگ اٹھا اور اسلام آباد سنٹر سے نشر ہونے والے ایک ادبی پروگرام”رات گئے” کے یکے بعد دیگرے پورے چار پروگرام ‘ پشاور کے قدیم ثقافتی مرکز”سیٹھی ہائوس” کے اندر ریکارڈ کرکے دبستان پشاور کو چار چاند لگا دیئے ‘ اب یہ چاروں پروگرام قومی نشریاتی رابطے پر مقررہ دنوں میں ایک ایک کرکے نشر کئے جائیں گے اس پروگرام میں سید شمعون ہاشمی ایک عرصے سے میزبان کے طور پر اپنے بہت ہی مخصوص انداز میں کار ادب کو آگے بڑھا رہے ہیں پروگرام کے مقامی طور پر پروڈیوسر سید ذیشان فضل نے ان چاروں پروگراموں کو بہت محنت ‘ سلیقے اور خوبصورتی سے ریکارڈ کرکے آنے والے دنوں میں ناظرین کے لئے محفوظ کر لیا ہے ‘ ان پروگراموں کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ان میں خیبر پختونخوا میں نثر ‘ غزل کے دو شعبوں کے علاوہ یہاں سے تعلق رکھنے والے دو عالمی شہرت یافتہ شعرائے کرام احمد فراز ‘ اور غلام محمد قاصر کی ادبی خدمات کا احاطہ کیاگیا ہے شعبہ نثر میں ڈاکٹر اویس قرنی اور ڈاکٹر سید زبیر شاہ ‘ غزل میں ڈاکٹر نذیر تبسم اور ڈاکٹر گوہر نوید ‘ غلام محمد ناصر کے فکرو فن پر عماد قاصر(قاصر مرحوم کے فرزند ) اور ڈاکٹر تاج الدین تاجو جبکہ احمد فراز کے فنی سفر ‘ ان کی شاعری ‘ نشریات کے حوالے سے خدمات اور ان کے ادبی معرکوں کے حوالے سے پروفیسر ناصر علی سید اور راقم الحروف نے تجزیہ کیا ‘ ان پروگراموں کو دلچسپ بنانے کے لئے ہر پروگرام میں موسیقی شامل کرکے ان کو سامعین اور ناظرین کے لئے قابل توجہ بنانے میں ستارہ یونس ‘ ایبٹ آباد کی رافعہ بانو ‘ پشاور کے گلوکار ذی شان اور ایک نئی گلوکارہ یمسہ نے حصہ لیا اور اپنی آواز کا جادو جگایا ہے پی ٹی وی کا یہ تجربہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اس کے لئے ناظرین اور کاراب سے جڑے اہل علم و فن کو ان پروگراموں کے عنقریب نشر ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا اور وہ بھی ”رات گئے” کہ بقول مرزا داغ دہلوی
دی موذن نے شب وصل اذان پچھلے پہر
ہائے کم بخت کوکس وقت خدا یاد آیا
اب دبستان خیبر پختونخوا میں نئے تخلیقی سفر یعنی اردو کے مختلف اصناف ناول ‘ افسانے ‘ آپ بیتی ‘ سفر نامہ نگاری اور شاعری کے تازہ شائع ہونے والی کتابوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں گزشتہ روز یارطرحدار پروفیسر خالد سہیل ملک ‘ جو روزنامہ مشرق میں ایک عرصے سے کالم بھی تحریر کرتے رہے ہیں کا تازہ افسانوی مجموعہ مون سون ملا’ خالد سہیل ملک ایک انتہائی پختہ کار ادیب ‘ ڈرامہ نگار اور تجزیہ نگار ہیں ان کے قلم کی روانی ‘ الفاظ کی بُنت ‘ سوچ کی فراوانی کی نہ صرف خیبر پختونخوا کے ادبی منظر نامے میں ہر سطح پر پذیرائی کی جاتی ہے بلکہ ملک گیر سطح پر نامور اہل قلم ڈاکٹر رشید امجد ‘ محمد حمید شاہد اور علی اکبر ناطق جیسے اہل بصیرت ‘ اہل قلم اور ادبی نابغہ شخصیات بھی ان کی تحریروں کی تعریف کرتے ہوئے ان کی فنی چابکدستی کا اغراف کرتے ہیں دوسری کتاب جو پروفیسر ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار کی محبتوں کا مرقع ہے ناول”دوام” کی شکل میں ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے ڈاکٹر اظہار ایک زودگوشاعر کی حیثیت سے پہلے ہی پہچانا جاتا ہے اور نہ صرف اردو بلکہ پشتو کے کئی خوبصورت شعری مجموعوں کا خالق ہے اور ایک پختہ کار شاعر کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں اپنا مقام تعین کر چکے ہیں ‘ وہ خود ایک اعلیٰ پائے کے نقاد اور اردو زبان کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں ‘ اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں جبکہ ان کے پی ایچ ڈی کامقالہ دبستان سرحد کے یکے ازسرخیل رضا ہمدانی کے فنی سفر کا احاطہ کرتے ہوئے اہل ادب سے خراج تحسین وصول کر چکا ہے ان کا تازہ تخلیق ناول دوام ان کی ذہانت و ذکاوت کامنہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ کتاب عام افسانے یا ناول کے طرز سے قدرے ہٹ کر لکھا گیا ہے اور چند کردار جو ایک مسئلے پر ایک پروگرام ترتیب دینے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان بے تکلفانہ انداز میں ایک سفر کا آغاز ہوتا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ناول کی بُنت عام افسانے یا ناول کے پلاٹ کی طرح نہیں ہے بلکہ نئے انداز میں کہانی آگے بڑھتی ہے اور اس دوران کیا کیا مسائل حل کرتے ہوئے کن خوبصورت الفاظ سے مقالے بنتے چلے جاتے ہیں فکر کی جولانی ‘ سوچ کی وسعت اور انشا پردازی کی تازہ کاریاں ہر ہر قدم پر قاری کو جکڑ کر اپنے ساتھ بہتے ہوئے فکری سفر میں ساتھ لے جاتی ہیں اس سے پہلے بھی ڈاکٹر اظہار نے اسی نئی طرزکے تحت ایک اور ناول” آخری محبت” کے نام سے تخلیق کی تھی یوں ہم انہیں فکشن(ناول) کی دنیا میں ایک نئی طرز کا موجود قرار دے سکتے ہیں بقول نواب ناطق
ناطق یہ سخن تیرا ہے تریاق پریہا
ذمباق تریہا ‘ لک ذمباق تریہا
اگلی کتاب ‘ پشاور کے ایک اور فرزند او نامور محقق و مورخ مضمون نگار ‘ امریکہ میں مقیم ڈاکٹر سید امجد حسین کی تحریر کردہ”چوتھا البم” ہے جس میں انہوں نے پشاور کی اہم شخصیات کے خاکے تحریر کرکے اہل علم و قلم کے سپرد کر دیئے ہیں ‘ ڈاکٹرامجد حسین ایک طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم وہاں پر اپنی دانست میں ایک چھوٹا پشاور سجائے ہوئے ہیں ‘ پشاور کی یادیں سینے سے لگائے وہ اپنے شہر کی روایات کو اپنی تحریروں کے ذریعے زندہ رکھے ہوئے ہیں ان کی مشہور کتاب”عالم میں انتخاب’پشاور” ایک ادبی ‘ ثقافتی ‘ تاریخ دستاویز کی صورت میں قدر مقبول ہے کہ پشاور کے بارے میں اس کتاب کا مطالعہ کئے بغیر کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ پشاور کو جانتا ہے ‘ چوتھا البم بقول ڈاکٹر امجد حسین انہوں نے سید فارغ بخاری کے تحریروں جو”البم” کی صورت سامنے آئی تھیں سے متاثر ہو کر اپنے اردگرد بسنے والے ‘ سانس لینے والے ‘ کرداروں سے مزین کرکے ان کی یادوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ہے ۔ بقول اقبال عظیم
جو مجھ پہ گزری ہے شاید سبھی پہ گزری ہے
فسانہ جو بھی سنا ‘سب سنا سنا سا لگا
دبسان خیبر پختونخوا میں بچوں کے ا دب پر بھی اب ایک عرصے سے خاصی توجہ دی جارہی ہے ‘ اور اس سلسلے میں راج محمد آفریدی اب تک بچوں کے لئے کہانیوں کی دو کتابیں سامنے لا چکے ہیں ‘ کچھ عرصہ پہلے ان کی کتاب ”انٹیک کار” کے نام سے شائع ہو کر خاص و عام سے پذیرائی حاصل کر چکی ہے جبکہ اب ان کی تازہ کتاب”کرنیں” کے نام سے کئی خوبصورت کہانیوں کے مجموعے کے طور پر نیشنل بک فائونڈیشن جیسے سرکاری اشاعتی ادارے کی وساطت سے منصٔہ شہود پر آئی ہے اور ان دنوں اسے ادبی حلقوں سے بھر پور پذیرائی مل رہی ہے ۔
نثر کے بعد شاعری کی بات بھی ہوجائے ‘ ڈاکٹر خادم ابراہیم خادم کی تازہ شعری تخلیق ”رنگ خوشبو’ قرار کا موسم” کے نام سے ان کا اولین شعری مجموعہ اپنی جولانیاں دکھا رہا ہے ‘
میں جانتا نہیں کہ اسے نام دوں میں کیا
چہرہ ہے آفتاب کہ کھلتا گلاب ہے
خادم بھلا دوں کیسے عجب حسن لازوال
جس کے بغیر جینا بھی میرا عذاب ہے
٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  کالی حوریں