”بیوی نہیں راضی تو کیا کرے گا قاضی”

دو عورتیں قاضی ابن لیلیٰ کی عدالت میں پہنچ گئیں،قاضی صاحب نے پوچھا تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟بڑی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو۔وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا ،انہوں نے ان سے میری شادی کردی۔میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی۔ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کی اور ساتھ یہ شرط بھی رکھ لی کہ پہلی بیوی کا معاملہ میرے ہاتھ میں سونپ دے۔شوہر نے تو باآسانی اور خوشی سے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی۔دوسری شادی ہوئی،سہاگ رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور کہا تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں،کچھ عرصے بعد میرے پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے۔میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کرلی۔میں نے بھی ان کے سامنے وہی شرط رکھ لی اور پھوپھی کے شوہر سے شادی کرلی اور پھوپھی کو طلاق دے ڈالی۔کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرنے پہنچ گئی۔میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے۔جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد (میرا سابقہ شوہر)کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا،مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی۔میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟اس نے ہاں کرلی ،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی بیوی کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں اس نے ایسا ہی کیا۔میں نے اپنے سابقہ شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی۔قاضی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟تو پھوپھی کہنے لگی قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی،اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلی۔قاضی صاحب کہنے لگے مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا طلاق بھی جائز ہے ،وکالت بھی جائز ہے۔طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہوکر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔قاضی نے یہ واقعہ خلیفہ منصور کو سنایا وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا،یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی۔ہم وہ قوم ہیں جو عورت کی سب سے زیادہ عزت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ہماری حرکتیں اور باتیں ہمارے اس دعوے کا ساتھ نہیں دیتی۔دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلمان مردوں کو پہلی شادی سے زیادہ دوسری شادی کا شوق ہوتا ہے،ہمارے معاشرے نے عورتوں کی طرح ان کیلئے بھی سخت معیار بنائے ہوتے تو یہ اپنے نکاح کیلئے سو نفل پڑھنے کی منت مانا کرتے،قسمت سے ان کی پیدائش ایک ایسے معاشرے میں ہوئی ہے جہاں ان کا پیدا ہونا ہی ان کا سب سے بڑا احسان مانا جاتا ہے اب ان کے منہ سے پھول جھڑیں یا پتھر ہر چیز ہنس کر قبول کرلی جاتی ہے۔مسلمان مردوں کو بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے۔قران نے مسلمانوں کو کئی شادیوں کی اجازت دی ہے لیکن اس پر سخت شرائط اور پابندیاں لگائی ہیں۔قران کہتا ہے کہ مرد دوسری،تیسری،چوتھی شادی کرسکتا ہے مگر مرد کو اپنی تمام بیویوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ کچھ بھی کرنا اجازت کی خلاف ورزی ہوگی۔عمران خان پر یہ الزام کہ انہوں نے بشریٰ بی بی سے عدت میں نکاح کیا تھا،اس طرح شعیب ملک اور ثانیہ مرزا نے اپریل 2010 میں شادی کی تھی،یاد رہے کہ 20 جنوری 2024 کو شعیب ملک نے اداکارہ ثناء جاوید کے ساتھ شادی کی تصاویر شیئر کرکے دوسری بار شادی کے بندھن میں بندھنے کی تصدیق کی تھی،عمران خان کی طرح ان دونوں کی بھی ایک دوسرے کے ساتھ دوسری شادی ہے۔ثنا ء جاوید نے پہلی شادی اکتوبر 2020 میں گلوکار عمیر جیسوال سے کی تھی۔عمران خان کے مطابق ہالی ووڈ اور بالی ووڈ فلموں کی مقبولیت پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافے کا ذمہ دار بنیں۔یاد رہے اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو سخت ناپسند فرمایا ہے کہ کوئی شخص دوسروں کو نیکی و بھلائی کا حکم دے لیکن خود اس پر عمل نہ کرے۔اب اس کیس میں بھی مسئلہ کیا ہے چیف جسٹس آف پاکستان خوب جانتا ہے۔انسانی معاشرے میں سب سے اہم سوال مردوزن کے باہمی فرائض وحقوق اور تعلقات کا ہے۔انسانی زندگی کا سب سے بڑا پہلو مرد وعورت کا آپس میں ایک رشتے میں منسلک ہوکر رہنا ہے۔عورت کے مستقبل میں ازدواجی حقوق کی نگہداشت کیلئے نکاح میں اس کے خاندان کو بھی اہم ایک کردار تفویض کیا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جن خواتین کے نکاح میں ان کے خاندان کی سرپرستی اور بعد ازاں دلچسپی ونگرانی برقرار رہتی ہے وہ عورتیں زیادہ بہتر طور پر اپنے ازدواجی حقوق کا تحفظ کرسکتی ہیں لیکن یہاں یہ بات منصفوں میں ابھی زیر غور ہے”پتھر کو میں لگا ہوں کہ پتھر لگا مجھے”افسوس مسلمانوں نے طلاق کو ایک کھلونا بنا لیا ہے۔پاکستانی معاشرے میں طلاق کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں ۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح 35 فیصد تک پہنچ چکی ہے یعنی 100 میں سے 35 شادیوں میں طلاق ہورہی ہے۔یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔جب انسان اپنی غلطیوں کا وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کا جج بن جائے تو فیصلے فاصلوں کو ہی جنم دیتے ہیں۔یہی فاصلے میاں بیوی کے دلوں میں پیدا ہوکر ان کا گھر خراب کر دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو طلاق بالکل پسند نہیں ہے۔البتہ اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ طلاق کے بغیر چارہ نہ رہے تب طلاق کا حق استعمال کیا جائے۔بات بے بات طلاق دینا غضب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے