صوبے میں فنی تعلیم کے اجراء پرتوجہ

یہ امر خوش آئند ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے طلبہ کو ہنر مند بنانے کے لئے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سطح پر فنی تعلیم دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اخباری اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کلاسز کے طلبہ کو مختلف قسم کی ہنر سکھانے کے لئے ہائی اور ہائر سیکنڈری سکولوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن برائے گورنمنٹ سکول کا منصوبہ تجویز کیا ہے اس سلسلے میں گزشتہ روز اعلامیہ بھی جاری کردیا گیا مجوزہ منصوبہ کے تحت موجودہ نصاب کے ساتھ ساتھ طلبہ کو فنی تعلیم بھی دی جائے گی۔اس سے کسی کو انکارنہیں کہ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس دور کی سب سے بڑی ضرورت فنی مہارت اور صنعتی پیشہ ورانہ تعلیم ہے دیکھا جائے تو دنیا میں ہروہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے جس نے فنی مہارت حاصل کی ہے۔ کسی ملک میں فنی ماہرین کی تعداد جس قدر زیادہ ہو وہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کرتا ہے۔اس تناظر میں کہ پاکستان نوجوانوں کی اکثریتی آبادی والا ملک ہے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ملک روزگار کے مواقع کا متلاشی بھی ہے ایسے میں خاص طور پر پاکستان میں فنی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ٹیکنیکل سکل یعنی ہنر ہی وہ کنجی ہے جو کسی بھی فرد کے لیے امکانات کے لاتعداد دروازے کھول دیتی ہے۔ہمارے ہاں عالم یہ ہے کہ ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی اداروں کے طلبہ کو یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ انہیں اعلیٰ ثانوی تعلیم کے لئے اپنی صلاحیتوں کی روشنی میں کن مضامین کا انتخاب کرنا ہے، جو ان کی سوچ اور مستقبل کے پیشے کے لئے موزوں ہوں۔اس ضمن میں اکثر طلباء مضامین کے انتخاب میں اپنے والدین، رشتہ داروں یا پھر اپنی پسندیدہ مثالی شخصیت کی پیروی کرتے ہیںایسا کرنے پر وہ اس لئے مجبور بھی ہیں کہ ہمارے تعلیمی اور تدریسی نظام میں طالب علموں کی درست رہنمائی کا کوئی روج ہی نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کے دور میں ہر طالب علم کا بنیادی مقصد ڈگر ی کاحصول بن گیا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بناسکے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ آج کل ایسے ڈگری یافتہ نوجوانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو بے روزگار ہیں اور نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں۔ ایک عام انسان جو اپنی آدھی زندگی ڈگری کے حصول میں صرف کردیتا ہے اورکسی ہنر کو سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دیتا اس کو اپنی ساری زندگی بے روزگاری کی نذرکرنی پڑتی ہے۔ہمارے ملک کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ہنر کا حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور نتیجتاً معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم دی جاتی ہے، جس کا اندازاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف 4 سے 6 فیصد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 66 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ہمارے دیہات ، قصبوں اور شہروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو صرف چند پیشوں سے آگاہ کیا جاتا ہے حالانکہ حصول رزق کے لئے اختیار کئے جانے والے درجنوں، بیسیوں اور سینکڑوں پیشوں میں سے طلبا و طالبات کو وسیع پیمانے پر انتخاب کرنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جن کی آبادی کا بیشتر حصہ 18 سے 25 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔جن میں %60 فیصد سے زیادہ نمبر لینے والوں کو تو کسی نہ کسی طرح کچھ چاہتے ہوئے اور کچھ نہ چاہتے ہوئے میڈیکل یا انجینئرننگ فیلڈ میں داخلہ مل جاتا ہے اور وہ اس شعبے میں چلے جاتے ہیں لیکن %60 فیصد سے کم نمبر حاصل کرنے والے کوئی بہتر فیصلہ نہیں کر پاتے اور ان میں سے زیادہ تر غیرتکنیکی پیشے کا چنائو کرتے ہیں، جس کا اکثر اوقات نہ تو انہیں اور نہ ہی معاشرے کو کوئی خاص فائدہ ہوتا ہے۔حالانکہ توجہ دی جائے تو کسی بھی تیکنیکی ادارے میں چار سالہ ڈ گری پروگرام کے دوران تیکنیکی مہارتیں حاصل کرنے سے کسی معروف کمپنی یا مینوفیکچرنگ فرم میں ملازمت کا موقع مل سکتا ہے جہاں مہارت اور ڈگری کا امتزاج کسی کے کیریئر کو بلندی پر لے جاسکتاہے۔اس کے علاوہ نوجوانوں کوفنی تعلیم جیسے تھری ڈی ڈیزائننگ، فیشن ڈیزائننگ، الیکٹریکل اپلائنسز، موبائل ریپئرنگ اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے کورسز کی جانب راغب کیا جائے تو اس سے نہ صرف معاشرے میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور فرسٹریشن ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ دوسروں پر انحصار کرنے کے خطرناک رجحان کا بھی خاتمہ ہو سکے گا۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں