تاجر گردی کے سامنے بے بس پولیس

پشاور کے خواتین بازار مینا بازار میں لیڈیز پولیس کے ساتھ بدتمیزی اور ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار تاجر کے سامنے پولیس کا گھٹنے ٹیکنا پولیس فورس اور حکومتی عملداری دونوں کو مذاق بنانے کے مترادف ہے اخباری اطلاعات کے مطابق تھانہ کوتوالی کو رپورٹ درج کراتے ہوئے ایک لیڈی کانسٹیبل نے بتایا کہ وہ مینا بازار میں گشت پر تھی اس اثناء میں ڈیوٹی پوائنٹ کے تنازعہ پر دکانداروں نے اسے و دیگر لیڈیز پولیس کو پرہجوم بازار میں گالیاں دیں اور ان کے سروں سے چادریں کھینچ لیں نیز تاجروں نے ان پر یہاں ڈیوٹی نہ کرنے کیلئے دبائو بھی ڈالا۔جس پر پولیس نے صدر سمیت دیگر کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے تاجر کو حراست میں لے لیاگیا تاہم بعد میں بااثر شخصیات کی مداخلت پر تاجر کو رہا کر دیا گیا۔قانون کا نفاذ اورقانون کی حکمرانی توبعد کی بات ہے جب پولیس ہی لیڈی کانسٹیبلز کے سروں سے چادریں کھینچنے والے تاجر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی تو اس پولیس سے چادر اور چاردیواری کے تحفظ اور امن عامہ برقرار رکھنے کی توقع ہی نہیں رکھنی چاہئے ۔ خیبر پختونخوا کے روایتی معاشرے میں جہاں خواتین کاعزت و احترام ہمارے دین اور کلچر دونوں کا کلیدی حصہ ہے بلکہ لازم ہے ایسے میں صرف اس بناء پر کہ لیڈی کانسٹیبلز کے سرکاری فرائض کی ادائیگی تاجروں کو ناگوار گزرے اور ان کے سروں سے چادریں کھینچ لی جائیں باعث شرم امر ہے اور اس سے بھی باعث افسوس امر پولیس حکام کا دبائو میں آکر واقعے کے ذمہ دار ملزم کو رہا کرنا ہے جس کا بطور سربراہ حکومت وزیر اعلیٰ کو سخت نوٹس لینا چاہئے اگر آئی جی خود اس واقعے کا نوٹس لے کر اپنے محکمے کا وقار بحال کرسکیں اور اپنے عملے کے خواتین کارکنوں کی عزت نفس اور پردے کی پامالی کا مدوا کر سکیں تو زیادہ بہتر ہوگا بصورت دیگر عدالت عالیہ پشاور کے معزز چیف جسٹس کو اس کا از خود نوٹس لینا چاہئے انسانی حقوق کے کارکنوں کو اس واقعے پر سخت احتجاج کرنا چاہئے جب محافظین ہی عزت و حرمت کے لٹیروں کا کردار ادا کرنے لگیں اور پھر بھی معاشرہ اس پر خاموش رہے تو پھر اس کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ اب گلی گلی اس طرح کے واقعات ہوں گے جنہوں برداشت کرنا پڑے گا۔ کیا خیبرپختونخوا میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی بدترین مثال قائم ہونے دیا جائے گا اور حکومتی شخصیات ایک بااثر شخص کی وجہ سے حکومتی وقار کودبائو پر لگانے کے متحمل ہوپائیں گے اس افسوسناک واقعے کا ازالہ تو ممکن نہیں کم از کم قانون کو اپنا راستہ اختیار کرکے متعلقہ دفعات کے تحت ملزم کو دوبارہ گرفتار ہی کرلیاجائے تاکہ آئندہ کے لئے اس طرح کے واقعے کی نوبت نہ آئے۔ پولیس اگر صرف اپنی ہی ایک خاتون کانسٹیبل کو تحفظ دینے میں ناکام ہو تو عوام کا اس سے توقعات وابستہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم