ڈونلڈ لو”لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں”

امریکہ پاکستان کی سیاسی انجینئرنگ کا اہم کردار رہا ہے۔امریکہ نے جب چاہا پاکستان کے کسی سیاسی یا عسکری راہنما کے نام پر کاٹا لگا دیا پھر چشم فلک نے اسے مائنس ہوتے دیکھا۔دونوں ملکوں کا سات عشروں کا تعلق اسی آنکھ مچولی سے عبارت ہے مگر تاریخ میں پہلی با ر امریکہ ایسی کوشش میں عوامی سطح پر اپنی ساکھ خراب اور ہاتھ زخمی کرچکا ہے۔اس تعلق میں امریکہ کے ایک حاضر سروس عہدیدار انڈر سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو کو نہ صرف پاکستان کے عوامی جلسوں میں تنقید کا نشانہ بنایا گیابلکہ اب یہ معاملہ امریکہ تک دراز ہوگیا ہے۔عمران خان نے مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تال میل کو بھانپتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے نکالا گیا تو میں اور زیادہ خطرناک ہوجائوں گا۔اس وقت اس بات کا جم کر مذاق اْڑایا گیا تھا اور خطرناک ہوجانے کی بات پر مختلف کارٹون بنائے گئے تھے۔آج امریکی کانگریس میں پاکستان اور امریکہ کے تعلق میں ڈونلڈ لو کا کٹہرے میں کھڑا ہونا۔پریشاں حال اور ٹوٹے ہوئے لہجے کے ساتھ اپنا دفاع کرنا یہ بتا رہا ہے کہ زمانہ صر ف امریکہ یا پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ ان کے تعلق کے حوالے سے بھی بدل گیا ہے۔عمران خان کی کیس میں تو صرف حکومت بدلی ہے مگر کھلے بندوں امریکہ کا نام جلسوں میں لیا گیا۔دھمکی آمیز زبان استعمال کرنے والے اعلیٰ امریکی عہدیدار کا نام دوسال سے پاکستان کی سیاست میں گونج رہا ہے اور اب اسی” خطرناکی ”کا دائر ہ امریکہ تک پھیل گیا ہے جہاں ڈونلڈ لو کو بلا کرانتہائی سخت سوالا ت کا سامنا کرنا پڑا۔یہی نہیں بلکہ اس اہم ترین کارروائی کے دوران ڈونلڈ لو کو جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا پاکستان اور امریکہ کے تعلق میں ایسے واقعات کی کوئی مثال نہیں ملتی جب پاکستان میں پائی جانے والی شکایتوںپر ایک پنچایت سجائی گئی ہو اورامریکی اہلکار کو اس کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو۔یہاں تو ریمنڈڈیوس نامی امریکی کنٹریکٹر دو پاکستانیوں کو دن دیہاڑے گولیاں مار کر چلا گیا۔دیت بھی پاکستانیوں نے ادا کی اور چند دن تھانے میں رہ کر جہاز میں بٹھا کر خصوصی اہتمام کے ساتھ بگرام ائر بیس پہنچادیا گیا اور پاکستان کا قانون ہاتھ ملتا اور منہ دیکھتا رہ گیا۔ڈونلڈ لو جب اپنا مؤقف بیان کر رہے تھے تو پچھلی صفوں سے ان پر ڈونلڈ لو جھوٹا ،شرم کرو اور عمران خان کو رہا کرو جیسے نعروں کا سامنا تھا۔یہاں تک ان لوگوں کو ہال سے نکالے بنا بات نہ بن سکی۔اس تضحیک نے ڈونلڈ لو کے دوسال کے زخم تازہ کردئیے۔دو سال سے وہ منظر سے غائب ہی رہے۔پاکستان تو ان کیلئے خواب وخیال ہی ہو کر رہ گیا حالانکہ پاکستان ان کی ذمہ داریوں کا اہم حصہ تھا۔ڈونلڈ لو بھارت اور سری لنکا سے ہو کر چلے گئے مگر پاکستان میں قدم رنجہ نہ فرماسکے۔ہوٹنگ اور نعروں کے درمیان وہ اس طرح کہہ رہے تھے کہ حکومت گرانے میں ان کو کوئی کردار نہیں جیسے یہ کسی عمارت کو بلڈوزرسے گرانے کا معاملہ ہو۔جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ہونی چاہئے اور دوچارسو گواہ بھی۔کون کہتا ہے کہ ڈونلڈ لو نے ناجائز تجاوزات کے انداز میں حکومت کے خلاف آپریشن کیا۔بات صرف اتنی ہے کہ انہوں نے پاکستانی سفیر کو بلاکر دھمکیاں دیں اور سفیر نے ان دھمکیوں کو پاکستان میں اس نوٹ کے ساتھ بھیجا کہ اس زبان پر احتجاج کیا جانا چاہئے۔اکثر لوگ اس بات کو حکومت گرانے میں اہم کردار سمجھتے ہیں اور ڈونلڈ لو اسے غلط بیانی یا جھوٹ قرار دے رہے ہیں۔یہ جھوٹ ہے تو انہیں پاکستان کے سفیر امریکہ اسد مجید پر ذاتی حیثیت میں مقدمہ کرنا چاہئے کہ جنہوںنے ان کی گفتگو کو غلط رپورٹنگ کرکے میں اسلام آباد بھیجا۔ پاکستان کے حکمرانوں سے احتجاج کرنا چاہئے جنہوں نے توہین سائفر کا مقدمہ بنا کر عمران خان کو ایک فرضی کہا نی میں سزا سناڈالی۔ ڈونلڈ لو کی بات سے لگتا ہے کہ ان دوبرس میں سکون کی نیند وہ بھی نہیں سوئے۔اسی لئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے خاندان سمیت مارڈالنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
یوں بقول جون ایلیا
اس کی گلی سے اْٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی چلی گئی

مزید پڑھیں:  سیشن جج کا اغوائ'قابل تشویش !

جس بات کو اسلام آباد کی فائلوں میں ہی بند رہ کر ایک سر بستہ راز رہنا تھا وہ دنیا بھر کا موضوع بن کر رہ گئی اوریہاں تک کہ دوسال بعد امریکہ کے اعلیٰ عہدیدار کواپنی بے گناہی اور صفائی دینا پڑرہی ہے۔ڈونلڈ لو نے یہ ماہ وسال جس انداز میں گزارے ہیں سائفر کے مبینہ مخاطب جنرل قمر جاوید باجوہ کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔رفتہ رفتہ ان کی عوام میں رونمائی کم ہوکر نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے انہیں دنیا کے ہر کونے میں پاکستانیوں کے ردعمل کادھڑکا لگا رہتا ہے ۔اس کھیل کا طاقتور اور پس پردہ کردار میاں نوازشریف سب کچھ کھونے کے بعد بھی بہت کم پاسکے ہیں۔وہ خود کو پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا مستقل ،جائز اور مناسب ترین امیدوار سمجھتے رہے۔ان کا خیال تھا کہ پنجاب کے مقبول راہنما کی حیثیت سے وزارت عظمیٰ پر انہی کا حق فائق ہے۔اپنے اور پرائے بھی ان کی اسی مقبولیت اورکراوڈ پْلر ہونے کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ کی قباء کو انہی کیلئے ناگزیر سمجھتے تھے مگر یہ دوبرس ان کی مقبولیت اور سیاست پر بہت بھاری گزرے۔لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں رہے تو پاکستانیوں نے وہاں بھی میلے سجا کر ان کے معمولات کو مشکل بنائے رکھا۔ملک میں مقبولیت کی امید پر واپس آئے تو قانون کو اپنے آگے دست بستہ پایا اور بائیومیٹرک مشین کی صورت میں قانون ان کی قدم بوسی کرنے ائرپورٹ پر پہنچا مگر اس قدر شاہانہ انداز کی واپسی کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کی مقبولیت تو دوبرس میں فسانہ بن گئی۔انتخاب سے دو دن پہلے وزیر اعظم نوازشریف کی شہ سرخیاں لگوا کر نقصان کا ازالہ کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر اشہبِ زمانہ طلب کا تازیانہ کھا کر بہت دور نکل چکا تھا اورآٹھ فروری کو انتخابات کے روزکہیں دور سے وقت کے گھوڑے کی ٹاپ ہی سنائی دے رہی تھی۔ڈونلڈ لو کی بننے والی لائیو درگت ان کا ذاتی دْکھڑا بیان کرنے کا انداز بتارہاتھا کہ کہیں کچھ غلط ہوا ہے کہ جس نے بہت سوں کو استاد دامن کے اس شعر کی تصویر بنا دیا ہے۔
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی ہو روئے اسی وہی آں

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی