امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر

صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ”اسلام آباد میں بیٹھے بابوئوں کی کم عقلی نے پاکستان کو غریب کیا ہوا ہے ، وسائل کی کوئی کمی نہیں ، سوچ سمجھ کی ضرورت ہے ، ملکی مسائل حل کرنے کے لئے مل بیٹھ کر لائحہ عمل اختیار کر نا ہو گا”۔ خدائے سخن میر تقی میر نے بھی اپنے دور کے حوالے سے کچھ ایسی ہی بات کی تھی کہ
امیرزادوں سے دلی کے مت ملا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے
صدر زرداری نے ”بابوئوں کی کم عقلی اور ناسمجھی” پر جو تبصرہ کیا ہے ، اس کا اظہار گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ کی ان بابوئوں کی اختیار کردہ پالیسیوں سے ہوتا ہے ، ان بابوئوں نے ملکی مفاد اور عوام کے دلدر دور کرنے کے لئے کبھی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی بلکہ ہمیشہ ڈنگ ٹپائوپالیسیوں کی بنیاد پر منصوبے بنا کر وقت کے حکمرانوں سے ان پر عمل درآمد کے حوالے سے ٹھپے لگوا کر ان کو نافذ کیاجس نے مخصوص طبقات کو مضبوط اور دولت مند بنا دیا جبکہ عوام کو خیرات ، زکواة اور صدقات تک محدود رکھتے ہوئے ہمیشہ دست نگر بنا دیا ، ہماری شاندار تاریخ کا وہ سنہری دور آج بھی فخر کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے جب زکواة لینے والے ناپید ہو گئے تھے ،مگر آج زکواة ، خیرات اور صدقات لینے والوں کی گنتی ختم ہونے ہی میں نہیں آتی ، ویسے قصور بقول صدر مملکت صرف اسلام آباد میں بیٹھے بابوئوں ہی کا نہیں ، انتہائی معذرت سے کہنے دیجئے کہ حکمران طبقات بھی ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ، جو صرف مقاصد کے حصول کے لئے اپنے مرحومین سے لے کر زندہ شخصیات کے ناموں پر کہیں انکم سپورٹ پروگرام اور کہیں قرضوں کی سکیمیں چلا کر عوام کو وقتی طور پر خوش کرنے کی تدابیر کرتے ہیں ، تاکہ آنے والے وقت میں انہیں زیادہ سے زیادہ ووٹ پڑیں حالانکہ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ جن سرکاری وسائل کو یہ لوگ اپنے ”پیاروں” کے ناموں سے منسوب سکیموں کے ذریعے غریب عوام کو خیرات کی صورت تقسیم کرتے ہیں کیا یہ ان کی ذاتی ملکیت ہے ؟اس حوالے سے ہم ”ذاتی ملکیت” کے نرم الفاظ کی جگہ انتہائی سخت الفاظ بھی استعمال کرسکتے تھے ، وہی جو یہ سیاسی رہنما آج کل ایک دوسرے کے ”بزرگوں” سے منسوب الفاظ کے بانیوں میں ایک دوسرے کو طعنے دیتے رہتے ہیں ، مگر ہم ایسا نہیں کرنا چاہتے اس لئے ”ذاتی ملکیت” جیسے بے ضرر الفاظ سے سے ہی اپنا مافی الضمیر واضح کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں جبکہ بابا ئے قوم نے اپنا ترکہ مختلف تعلیمی اداروں کے نام کرکے قربانی کی جومثال قائم کی اس کی تفصیل سے پوری قوم واقف ہے رہ گئے دیگر رہنماء تو انہوں نے ہمیشہ سرکاری وسائل اپنے ذاتی ناموں پر خرچ کرکے قوم کا ”خادم” ہونے کے تاثر کو راسخ کیا ۔ بقول مرحوم سجاد بابر
اپنے تاریک گریبان میں جھانکا تو کھلا
قاتل صبح کوئی ایک نہیں سارے ہیں
ریڈیو پاکستان کے ہمارے ایک دیرینہ ساتھی اور دوست گلزار احمد(ریٹائرڈ ڈائریکٹر نیوز) نے آج صبح فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی جو قابل توجہ ہے اور جس کا موضوع زیر بحث سے تعلق بھی بنتا ہے ، وہ پوسٹ کچھ یوں ہے کہ ”پاکستان میں لوگ سالانہ 560ارب روپے خیرات ، زکواة ، صدقات میں تقسیم کرتے ہیں، مگر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے غربت بڑھ رہی ہے ”۔اگر غور سے دیکھیں تو گلزار صاحب نے بھی باالفاظ دیگر وہی بات کی ہے جو صدر آصف زرداری نے کہی ہے ، اور اگر اجازت ہو تو ہم گزشتہ برسوں میں ایک نہیں متعدد بار اس جانب توجہ دلا چکے ہیں کہ یہ حکومت ہر سال بنکوں کے بچت کھاتوں سے اربوں روپے بطور ”زکواة” کٹوتی کرکے مستحقین میں تقسیم کرتی ہے ، تو اگر ہر مستحق زکواة کو ماہانہ چند سو روپے ادا کرکے ”حاتم کی قبرپر لات” رسید کرکے ( ہر برسر اقتدار جماعت) ذاتی سیاسی مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کرتی ہے ، جس سے آج تک نہ غربت کم ہوئی نہ غریبوں کی تعداد میں کمی ہوئی بلکہ یہ تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے اور اس سسٹم کے اندر مبینہ بدعنوانیوں میں بھی کمی نہیں ہوتی ، حالانکہ جب اسلام میں زکواة کے نظام کی ابتداء ہوئی تو چند برس بعد ہی زکواة دینے والے تو بڑھتے رہے زکواة لینے والا کوئی نہیں رہا ، کیونکہ تب زکواة وصول اور تقسیم کرنے والوں کے دلوں میں خوف خدا موجود تھا ، یہاں ایک بار پھر اس سوال کو دوہرانے کی اجازت دیجئے کہ ہمارے ہاں جس سودی نظام کے تحت بنک کھاتوں سے زکواة کے نام پر کٹوتی ہوتی ہے ، کیا وہ واقعی زکواة کہلانے کی مستحق ہے؟ چلیں رہنے دیں ، اس سوال کا جواب ہمیں کسی بھی مذہبی جماعت یا شخصیت کی جانب سے کبھی نہیں ملا کیونکہ ان کے پاس اس کا جواب موجود ہی نہیں ہے ، پھر بھی ایک لمحے کے لئے اگر اسے واقعی زکواة مان لیا جائے تو ان اربوں روپوں کوچند سو کی صورت مستحقین میں تقسیم کرنے کی بجائے اگر اس حوالے سے درست منصوبہ بندی کرکے اس رقم کو یوٹیلٹی سٹورز کی طرز پر ایک ادارہ قائم کرکے اس میں انویسٹ کیا جائے جس سے نہ صرف پورے ملک میں متبادل روزگار کے حصول میں انہی مستحقین زکواة کے گھرانوں کے افراد کو ملازمتیں دے کر ان کی مستقل آمدنی کا بندوبست کیا جا سکتا جبکہ عام لوگوں کو سستی اشیائے صرف کی فراہمی بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے ، اگر یہ منصوبہ نیک نیتی اور دیانتداری سے شروع کیا جائے تو ملک کے صاحبان ثروت بھی اپنی زکواة ، صدقات وغیرہ اس ادارے کو دے کر اس کارخیرکو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ، یہی وہ مثبت سوچ ہو سکتی ہے جس کی طرف صدر آصف زرداری نے توجہ دلائی ہے ، یعنی وسائل کو درست انداز میں استعمال کرکے ملک کے غریبوں کے دلدر دور کئے جا سکتے ہیں ، مگر اس کے لئے درست سوچ بنیادی شرط ہے ۔ بقول جلال الدین رومی
ہر چہ آید بر تو از ظلمات غم
آں زبیباکی و گستاخی است ہم

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال