p613 200

لاہور جلسہ نہ روکنے کا درست فیصلہ

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ روکنے کی حکومتی اقدامات پر بعض وزراء کی تنقید کے بعد لاہور کا جلسہ نہ روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے البتہ وزیراعظم عمران خان حزب اختلاف کے جلسوں کے انعقاد سے کورونا کی شرح میں اضافہ کی صورت میں کارروائی کے خواہاں ہیں جبکہ وزیراطلاعات کا بیان ہے کہ لاہور جلسے پر پابندی ہے لیکن نہیں روکیں گے۔ پی ڈی ایم کے قائد کا بیان ہے کہ حکومت ایک غیر مؤثر چیز بن کر رہ گئی ہے رکاوٹیں بھی سامنے آرہی ہیں لیکن تمام چیزوں کی پرواہ کئے بغیر وہ قوم اور عام آدمی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حکومت نے پی ڈی ایم کے پشاور اور ملتان کے جلسے کے حوالے سے جو طرزعمل اختیار کیا اور ایک جانب پابندی اور ہر قیمت پر روکنے کے بیانات اور دھمکیاں دی گئیں مگر دوسری جانب عملی طور پر جلسے کے انعقاد میں کوئی بڑی رکاوٹ نہ ڈالی گئی اور تصادم سے گریز کیا گیا۔ بہرحال لاہور میں جلسے کے انعقاد کو نہ روکنے کا جو اعلان کیا گیا ہے اس کے بعد اس حکمت عملی میں اگر مگر اور تبدیلی کی ضرورت نہیں، دوسری جانب کا رویہ یہ ہے کہ حکومت اجازت دے یا نہ دے پی ڈی ایم کی قیادت کورونا کے باوجود جلسوں پر بضد ہے اور غالباً لاہور کے جلسے کے بعد ان کی حکمت عملی میں مزید جلسوں کے انعقاد کی بجائے دھرنا اور استعفے دینا ترجیحات میں سرفہرست آجائے۔ حزب اختلاف کے روئیے سے قطع نظر تصادم کی پالیسی سے گریز حکومت کا احسن فیصلہ ہے اگر یہی پالیسی ملتان کے جلسے کے حوالے سے بھی اختیار کی جاتی تو پی ڈی ایم کا جلسہ خواہ کتنا بھی قابل ذکر ہوتا اس کا اتنا چرچا نہ ہوتا جتنا ہوچکا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کسی ایک حکمت عملی پر عمل پیرا نہیں جو کمزوری پر دال ہے، حکومت اگر اجازت دینے کی خواہاں نہیں اور رکاوٹیں کھڑی کرکے کشیدگی کی متحمل بھی نہیں ہوسکتی تو بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ اس موضوع پر بلاوجہ کی بیان بازی بھی نہ کی جائے۔
فلٹریشن پلانٹس کو عوام سے بچایا جائے
شہر کے واٹر فلٹریشن پلانٹس کی خرابی توڑ پھوڑ اور خراب حالت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں محکمانہ غفلت کم اور عوام کا قصور زیادہ نکل آئے گا۔ جس علاقے یہاں تک کہ کسی جدید اور پوش بستی میں قائم واٹر فلٹریشن پلانٹ کا جائزہ لیا جائے تو بے شمار ایسے عوامل نظر آئیں گے جس کی ذمہ داری عوام پر عائد ہوگی یہی وجہ ہے کہ ایک نافع عوامی منصوبہ عوام کیلئے بے سود اور سرکار کیلئے دردسر بن چکا ہے، اب جبکہ فلٹریشن پلانٹ کی بحالی کی مساعی ہورہی ہیں ڈبلیو ایس ایس پی اس امر کو یقینی بنائے کہ ان پلانٹس کی حفاظت کیلئے جتنے اقدامات کئے جاسکیں اولاً اس پر توجہ دی جائے اور ان پلانٹس کو صرف پانی کے حصول اور پانی کے ضیاع کے مراکز بنانے کی بجائے باقاعدہ منظم طریقے سے صرف پینے کیلئے یہاں سے پانی کے حصول کیلئے انتظامات کئے جائیں تاکہ جس مقصد کیلئے ان کا قیام عمل میں لایا گیا ہے وہ مقصد پورا ہو۔
آٹا چینی سرکاری نرخوں پر دینے کیلئے اقدامات کی ضرورت
حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کو مزید پچیس ہزار ٹن چینی دینے کا فیصلہ کیا ہے، حکومت یوٹیلیٹی سٹورز کو عوام کیلئے اشیاء کے مناسب داموں خریداری یقینی بنانے کی بھی دعویدار ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کی اولاً اشیاء معیاری نہیں ہوتیں، دوم یہ کہ جس چیز کی مارکیٹ میں قیمت زیادہ ہو جائے خواہ وہ چینی ہو یا آٹا یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی دستیاب نہیں ہوتیں، اس وقت خیبر پختونخوا میں آٹا کی سرکاری قیمت اور بازار کی قیمت میں پانچ سو روپے کا فرق ہے، حکومت سرکاری ریٹ پر آٹا کی فروخت یقینی نہیں بنا سکتی وہ الگ معاملہ ہے یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی آٹا دستیاب نہیں۔ اب حکومت جو چینی منگوا رہی ہے یقین نہیں آتا کہ یہ بھی یوٹیلیٹی سٹورز پر عوام کو ضرورت کے مطابق ملے گی۔ خیبر پختونخوا میں یوٹیلیٹی سٹورز پر اگر یوٹیلیٹی سٹورز کے آس پاس کے ایک مخصوص علاقے کے لوگوں ہی کو آٹا مہیا کیا جائے اور ہر علاقے کے یوٹیلیٹی سٹورز پر اس علاقے کے عوام کی ضرورت کے مطابق آٹا فراہم کیا جائے تو آٹا مہنگا فروخت کرنے والوں کا مارکیٹ میں مقابلہ ممکن ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو یوٹیلیٹی سٹورز کے معاملات کے حوالے سے وزارت پیداوار کے وفاقی وزیر سے رابطہ کرکے کوئی موزوں لائحہ عمل ترتیب دینے کی سعی کرنی چاہئے۔ علاوہ ازیں یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیائے صرف معیاری رکھے اور عوام کو مقررہ قیمتوں پر اشیاء فراہمی کی سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ صوبے میں سرکاری قیمت پر آٹے کی فراہمی کے مراکز میں اگر یوٹیلیٹی سٹورز کا کوٹہ رکھا جائے اور پھر اس کا باقاعدہ آڈٹ کروایا جائے تو یہ بھی ایک کارگر نسخہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں