p613 245

مشرقیات

حضرت نظام الدین اولیا کسی کی دل شکنی نہ کرتے۔ اگر آنے والا متکبر سرمایہ دار ہوتا تو یہ درویش خدامست اسے ناکام و نامراد لوٹادیتا، ورنہ عام طور پر حضرت نظام الدین اولیا نذریں قبول فرمالیتے تھے۔ مگراس طرح کہ ساری چیزیںاسی وقت ضرورت مندوں میں تقسیم کردی جاتی تھیں۔ حضرت نظام الدین اولیا’ سلطان علاء الدین خلجی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی دہلی اور اس کے گرد و نواح میں بہت زیادہ مشہور ہوچکے تھے۔ اس زمانے میں سلطان علاء الدین خلجی کا ایک امیر حضرت نظام الدین اولیا کی خدمت میں حاضر ہوا اور قیمتی نذر پیش کی۔ خلجی امیر کا خیال تھا کہ حضرت نظام الدین اولیا کسی پس و پیش کے بغیر اسکی نذر قبول فرمالیں گے۔ شاید اس خیال کی وجہ یہ ہو کہ خلجی امیر گوشہ نشین درویشوں کو ضرورت مند سمجھتا تھا۔ ”تمہاری اس محبت کاشکریہ کہ تم نے درویشوں کااس قدر خیال رکھا”۔ حضرت نظام الدین اولیا نے فرمایا: ” مگر اس فقیر کو اتنی بڑی رقم کی حاجت نہیں ہے”۔خلجی امیر کا چہرہ اتر گیا۔ حضرت نظام الدین اولیا کے طرز عمل نے ایک سرمایہ دار کے ان خیالات کی نفی کردی تھی کہ درویش ضرورت مند ہوتے ہیں اور ہر خاص و عام کی پیش کردہ نذر قبول کرلیتے ہیں۔ ”یہ رقم ضرورت مندوں تک پہنچا دو کہ وہ مجھ سے زیادہ تمہاری امداد کے مستحق ہیں”۔ خلجی امیر کو خاموش پا کر حضرت نظام الدین اولیا نے فرمایا: ایک سرمایہ دار کا قصر پندار آن کی آن میں منہدم ہوگیا۔ خلجی امیر نے درویش کا یہ انداز بے نیازی نہیں دیکھا تھا۔ دل پر چوٹ لگی تھی۔
گڑ گڑانے لگا۔ ”شیخ! مجھے اس طرح تو ناکام و نامراد واپس نہ لوٹائیں”۔ ”بھائی ! اپنا راستہ لو۔ کیوں ایک درویش کاوقت برباد کرتے ہو؟ حضرت نظام الدین اولیا نے بیزاری کے ساتھ فرمایا۔
” مجھے اور بھی بہت سے ضرور کام ہیں”۔ دراصل وہ خلجی امیر اپنی دولت کامظاہرہ کر رہاتھا اور درویشوں کو ایک بڑی رقم دے کر اپنی انا کی تسکین چاہتا تھا۔درویش کو دنیاوی دولت سے زیادہ دین کی طلب ہوتی ہے۔
ان کی نظر میں دنیا کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ دنیا میں صرف رضائے الٰہی کے حصول میں مشغول رہتے ہیں اور جو بھی دنیاوی معاملات نمٹاتے ہیں اللہ کی رضا ہی ان کا مطمح نظر ہوتی ہے۔مومن کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ لالچ اور حرص سے پاک زندگی گزارتا ہے۔لالچ، حرص اور دنیاوی خواہشات ایسا دریا ہے جس کے آگے کبھی بند نہیں باندھا جاسکتا۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہیں سو قسم کی اور خواہشات سر اٹھائے کھری ہوجاتی ہیںاو رجب وہ پوری نہیں ہوتیں تو انسان بے سکونی اور پریشانی محسوس کرتا ہے ۔ان اولیاء کرام کی زندگی کا درس یہی ہے کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے اسی پر قناعت کر و اور صبر شکر ہی میں سکون ملتا ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی