4 300

حیرت آغاز و انتہا ہے

میں: گزشتہ گفتگو میں یہ نکتہ سامنے آیا تھا کہ انسان کے ذہن میں صرف اسی چیز سے متعلق کوئی تخلیقی خیال آسکتا ہے جس کا مشاہدہ اور تجربہ اس نے اپنے حواس خمسہ کے ذریعے براہ راست کیا ہو۔
وہ: بالکل ایسا ہی ہے خدا نے انسان کو بنایا ہی اس ساخت پر ہے کہ اس کے دل ودماغ میں خود سے کوئی خیال آ ہی نہیں سکتا، انسان نے ابتدائے آفرینش سے اب تک جو کچھ بھی بنایا ہے ہمیشہ کسی چیز کو دیکھ کر بنایا ہے، اس کی ہر ایجاد ایک (Indpiration) کا نتیجہ ہوتی ہے۔ خلاق توصرف خدائے واحدہ لاشریک کی ذات ہے، ہاں انسان نے اس کی بنائی ہوئی کائنات اور اس زمین میں پھیلی تخلیقات کو دیکھ کر کچھ چیزیںضرور بنائی ہیں، مگر ان میں سے کسی ایک شہ کا بھی خدا کی تخلیق کردہ کسی ایک چیز سے بھی موازنہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ جس طرف نکل جائو حیرانی کا ایک ناختم ہونے والا جہان ہے، پرت در پرت کھولتے چلے جائو، سوائے حیرانی کے کچھ نہیں ملے گا۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اپنی کتاب ”دو قرآن” میں ایک لندن کے ایک پروفیسر مسٹر ولیم کا واقعہ لکھا ہے جو انسانی کان پہ تحقیق کررہا تھا، جب اس نے خورد بین سے کان کی اندرونی ساخت کا مشاہدہ کیا تو وہ انتہائی باریک رگوں کا جال دیکھ کر ششدر رہ گیا اور بے اختیار چلا اُٹھا کہ جس ہستی نے اتنی کاریگری سے یہ کان تخلیق کیا، کیا وہ خود سننے کی صفت سے محروم ہوگا۔
میں: انسان میں جستجو کا عمل ابد تک یونہی جاری رہیگا اور اس کی حیرانی اسی طرح بڑھتی رہی گی۔
وہ: میرے خیال سے یہ حیرانی سے زیادہ عاجزی کا معاملہ ہے، انسان خدا کی بنائی ہوئی ہر چیز کے آگے عاجز ہے۔ کبھی تم نے سنا کہ کسی سائنسدان نے یہ دعوی کیا ہو کہ میں نے ایک نیا پھل ایجاد کیا ہے، یا سائنس نے ایک نیا پھول بنالیا ہے، یا کوئی یہ کہے کہ میں اپنے لیے پانی خود بناتا ہوں، اس زمین پر بہنے اور آسمان سے برسنے والے پانی کو استعما ل میں نہیں لاتا۔
میں: نہیں ایسا تو کبھی نہیں ہوا ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ ایک ہی قبیل کے دو پودوں کی قلموں اور جڑوں وغیرہ کو ملا کر اسی پیڑ پودے کی کوئی اور قسم بنانے میں کامیابی ہوئی ہے۔
وہ: ہاں بالکل ایسا ہی ہے اور وہ بھی صرف موجود چیز سے ممکن ہوا ہے جو انسان کی آنکھوں کے سامنے ہے، انسان نے عدم یاغیر موجود سے آج تک کچھ نہیں بنایا اور شاید وہ ایسا کبھی بھی نہ کرسکے۔ میں: میرے خیال سے تو انسان کبھی ایسا نہیں کرسکے گا کیوں کہ ایک چیز جو انسان نے کبھی دیکھی اور محسوس ہی نہیں کی تو اس کو وجود میں لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وہ: فرض کرو کہ انسان یہ سوچے میں عدم سے کچھ تخلیق کرکے دکھائوں گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا؟ کیونکہ مجبوری یہ ہے کہ جو بھی انسان کے ذہن میں آئے گا وہ اس زندگی میں کسی نہ کسی مقام پر اس کے مشاہدے سے لازمی گزرا ہوگا۔
میں: اس موقع پر میرے ذہن میں ایک سوال اُٹھا ہے کہ کوئی یکسر نیا اور منفرد نظریہ یا فلسفہ بھی انسان کے ذہن میں نہیں آسکتا؟ دنیا میں ایک سے ایک قابل فلسفی اور نظریہ ساز گزرے ہیں اور جن کے علم ودانش کی مثالیں رہتی دنیا تک دی جاتی رہیں گی۔
وہ: میرے دوست جیسا کہ ہم نے ابھی بات کی کہ کسی مادی شہ کی تخلیق ہویا نئے خیال اور سوچ کا طلوع دونوں ہی کا عدم سے وجود میں آنا ناممکن ہے۔ دنیا میں اب تک جو بھی بڑے سے بڑے فلسفی اور مفکر آئے ہیں وہ بھی خدا کے اُتارے ہوئے صحیفوں اور الہامی کتابوں سے اخذکردہ احکامات، اصولوں اور باتوں کو ادل بدل کرپیش کرتے رہے ہیں۔ بس زبان، اسلوب، انداز بیان اور عصری تقاضوں کا فرق موجود رہا ہے۔
میں: لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان نے تسخیر کائنات کے اس عمل میں بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔ آج کی سائنس، قوانین طبیعات، علم فلکیات، طبی کامیابیاں بہت کچھ ماضی کے مقابلے میں آسان اور واضح ہوگیا ہے۔
وہ: میرے خیال سے یہ تسخیر کائنات سے زیادہ خبر پہنچنے اور آگاہ ہونے کا معاملہ ہے، بقول اقبال۔ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں۔ انسان پر علم وتحقیق کی بنیاد پر جیسے جیسے اس کائنات کے راز افشا ہوتے جارہے ہیں، اسی حساب سے وہ ہرگزرتے دن کے ساتھ پرانی کی جگہ نئی تدبیر اختیار کرتا جارہا ہے۔ کیوںکہ انسانی نفسیات کے حوالے سے یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس کی ہر جستجو ہر تحقیق کے بعد اسے ایک نئی خبر ملتی ہے، جسے وہ اپنی دریافت سمجھتا ہے اور عقل انسانی کی پرواز بس یہیں تک ہے کہ وہ اشیا کو صرف جان سکتا ہے اس معلومہ حقیقت میں ردو بدل نہیں کرسکتا، ہاں اس کو اپنے فائدے کیلئے استعمال ضرور کرسکتا ہے اور اگر نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو بہت سے بہت یہ کہ اس سے محفوظ رہنے کیلئے کوئی حفاظتی طریقہ سوچ لے۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی