گومگو کی کیفیت

پاکستان اس وقت گومگو کی کیفیت میں ہے ۔ اس کیفیت کا کوئی منطقی انجام دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہ دراصل دل و دماغ کی جنگ ہے ۔ ایک جانب سے دل کی آواز آتی ہے جو کہتی ہے کہ بدعنوانی بہت بری شے ہے کوئی بھی معاشرہ بدعنوانی کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا پھر کرپٹ اور بدعنوان لیڈر تو بہت بڑا عذاب ہے ۔ خود غرض اور بزدل انسان کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ ملک میں میرٹ کا نظام ہونا چاہئے جب تک میرٹ نہ ہو گا اس وقت تک معاشرے سے بے چینی نہ ختم ہو گی۔ یہ دل کی بات ہے اور سب باتیں ہی ٹھیک ہیں لیکن دماغ اس سب بات کو مانتے ہوئے بھی حقیقت سے بھرپور آگاہی رکھتا ہے ۔ وہ اس دل کی مکمل نااہلی سے بھی واقف ہے ‘ گو مگو کی کیفیت کوبھی سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ دل کی باتیں سب ہی اچھی ہیں بس ان اچھی باتوں کی اس حقیقی دنیامیں فی الحال جگہ نہیں۔ ملک میں میرٹ کا نظام ہونا چاہئے لیکن اس معاشرے میں سب میرٹ کی باتیں ہی کیا کرتے ہیں۔ اب کوئی یہ کیسے بتائے کہ میرٹ ان طے شدہ ضابطوں کا نام ہے جو بنا کسی ذاتی مفاد کومد نظر رکھے محض نظام اور ملک کی بھلائی کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جاتا ہے ۔ اس پر عمل پیرا ہونے سے سیاسی جماعتوں کے خوابوں کو تعبیر ملے نہ ملے ملک کونقصان نہیں ہوتا۔ یہ ایک سادہ فارمولا کسی بھی حکومت کو سمجھ نہیں آتا کیونکہ معاملات میں ایک عمومی بگاڑ ایسا ہوتا ہے کہ وہ جوایمان دار اور اس ملک کے وفادار ہیں انہیں یہ غلط فہمی ہونے لگتی ہے کہ ان سے زیادہ درست سوچنے والا کوئی نہیں کیونکہ کسی نے کبھی بھی اس ملک اور اس کے عوام کے حوالے سے درست فیصلے کئے ہوتے تو حالت ایسی دگر گوں نہ ہوتی اور وہ جنہیں بہر طور اپنے مفادات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے ‘ وہ اس بگاڑ سے اپنے لئے راستے تلاش کرلیتے ہیں۔بگاڑ کتنا ہی زبردست کیوں نہ ہو’ نظام میں ہمیشہ وہ لوگ موجود رہتے ہیں جو ملک سے محبت کرتے ہیں اور اس کے نقصان میں کسی طور کوئی حصہ نہ خود ڈالنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کواس کی اجازت دیتے ہیں۔
اس ساری تمہید کا مقصد اس حکومت کے ہی حوالے سے ہی بات چیت کرنا نہیں بلکہ گزشتہ حکومتوں کے معاملات پر بھی ایک چٹتی ہوئی نظر ڈالنا ہے ‘ یہ نہیں کہ ہمیں معاملات کا علم نہیں یا گزشتہ حکومتوں کا طریقہ کارہم بھول چکے ہیں لیکن اس حکومت سے امیدیں بے رنگ و برباد ہوئے بھی اب کافی عرصہ گزر چکا۔ بدعنوانی بری لگتی ہے ‘ بات درست ہے مگر اس بدعنوانی کے سنگ اگر کھانے والے تیل کی قیمت اتنی رہے کہ خریدتے ہوئے روح نہ کانپ اٹھے توبدعنوانی بھی قبول ہے اور ہم یہی کرتے رہے ہیں ‘ میرٹ اچھا لگتا ہے لیکن اگر یہ میرٹ ہمارے ہی بیٹے کی نوکری کی راہ میں رکاوٹ بن جائے تو بھلا ایسے میرٹ کا ہم نے کیا کرنا ہے ۔ ہمیں تو وہ ایم این اے پسند ہے جواپنے حلقے کے لوگوں کے کام کسی بھی طور کرواتا ہے اور جس نے میرے بچے کو ملازم کروایا تھا۔ دل و دماغ کی اس جنگ میں ہم الجھے ہوئے ہیں۔ یہ جنگ روز بروز بڑھتی جاتی ہے ‘ اس لئے بھی کہ زندگی جینی مشکل ہو رہی ہے ۔ عام آدمی کے مسائل میں ہر ایک لمحہ بڑھوتری ہو رہی ہے کہیں سے کوئی ٹھنڈی ہوا نہیں آتی اور اس لئے بھی کہ دل کی ساری باتیں درست ہونے کے باوجود یہ علم بھی اپنی جگہ مضبوط ہے کہ بہت سی خرابی اس دل کی بھی ہے اور اس خرابی کا کوئی حل نہیں اس خرابی کا حل اس لئے نہیں کہ دل ضدی بھی ہے اور منہ زور بھی ۔ اسے اپنی خرابی کا علم بھی نہیں ‘ وہ اپنے آپ کو درست سمجھتا ہے اور اپنی منہ زوری کو میرٹ ۔ اب اس کا علاج کیسے ممکن ہے وہ ضد جوبالک ہٹ نہیں بلکہ وژن سمجھی جاتی ہے یعنی بصیرت اور منہ زوری جس کو میرٹ سے خلط ملط کر دیا جائے اب اس دل کی کون مانے اور کون سنے اور کوئی اسے کیا کہے کیونکہ اس بیماری کا توکوئی علاج ہی ممکن نہیں۔ ہم سب ہی بہت خوش اور جذباتی تھے ۔ ان کی واپسی پر ان کے سمائو میں وہ جذبہ مفقود تھا جو جاتے ہوئے موجود تھا۔ وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا ضدی ہے ۔ مستقل مزاجی اور ضد میں بس تھوڑا سا فرق ہوتا ہے لیکن مستقل مزاجی ‘ بصیرت کو سنواردیتی ہے اور ضد بصیرت کوبگاڑ دیتی ہے ۔ میں آج دن میں کئی بار اس بات کو یاد کرتی ہوں اور پھر سوچتی ہوں کہ ہم اس ملک کے لئے تو تاسف بھی محسوس نہیں کر سکتے کیونکہ بدعنوان لوگوں سے بھرے اس ملک میں بگاڑ سنوارنے کو ایک ایسا شخص آیا جو ضدی تھا مستقل مزاج نہیں۔ اسے اس کے ساتھیوں نے یہ بھی بتایا نہیں کہ ان کے پاس لائحہ عمل بھی کوئی نہیں اور وہ ہے گزشتہ حکومتوں کی بدعنوانی کے برے خواب سے نکل کر یہ دیکھ نہیں رہا کہ اس کے ساتھیوں نے بھی تو اس ملک کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا۔ ہم برے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن جو سراب اس ملک کے لوگوں کو دکھائے گئے وہی سراب جناب عمران خان نے بھی دیکھے ۔ عوام اور عمران خان کے درمیان بس جادوگر رہے جو سراب گھڑتے رہے او رپانی یک دو بوند بھی کسی کو میسر نہ رہی۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال