صوبائی حقوق یا باسی کڑھی میں ابال

خیبر پختونخوا اسمبلی میںاپوزیشن نے بجلی ‘ گیس اور تیل کے وسائل میں صوبے کو اپنا حصہ دینے پر زور دیتے ہوئے مرکزی حکومت کے ساتھ مسئلہ اٹھانے کے لئے حکومت کو تعاون کا یقین دلایا ہے ایم پی اے خوشدل خان نے پیسکو الیکٹرسٹی ڈیوٹی کے حوالے سے تحریک التوا پیش کی جس میں انہوں نے بتایا کہ اس مد میں ریونیو کسولیڈیشن فنڈ کا حصہ بننا چاہئے اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ کرپشن اور آئین کی خلاف وزی ہے ایم پی اے احمد کنڈی نے کہا کہ مرکز میں ون یونٹ مائنڈ سیٹ بندہ صوبے کا دشمن بن چکا ہے صوبائی حکومت اپنا مقدمہ آئی سی سی اور اکنامک فورم پر لڑنے میں ناکام رہی ہے ایم پی اے سردار یوسف نے کہا کہ صوبے کے حقوق کے لئے اپوزیشن ہر قسم تعاون کے لئے تیار ہے لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف حکومت جب مرکز میں تھی تو صوبائی حکومت اپنا حصہ حق لینے میں ناکام رہی ایم پی اے سردار بابک نے کہا کہ بجلی بلوں کی قیمتوں میں اضافہ کردیاگیا ہے ایک گھر کا بل کارخانے کے برابر آتا ہے صوبہ بجلی پیدا کرتا ہے جو پنجاب جا کر واپس خیبر پختونخوا آتی ہے ملکیت ہماری ہے لیکن نرخ مرکز مقرر کررہا ہے پانی ہمارا ‘ تیل ہمارا ‘ گیس بجلی ہماری ہے لیکن کارخانہ یہاں نہیں لگتے حکومت چار کروڑ عوام کے جائز حق کے لئے مرکز کے ساتھ احتجاج کرے اپوزیشن اس میں بھر پور ساتھ دے گی ایم پی اے فضل الٰہی نے کہا کہ اٹھارویںترمیم کے بعد بجلی و گیس پر ہمارا حق ہے مرکز میں حکومت تبدیل ہونے پر صوبہ میں گیس بجلی آٹا غائب ہو چکا ہے صوبے کا حق ہر صورت لے کر رہیں گے ۔ہر ممبر صوبائی اسمبلی نے اپنی جگہ بجا ارشاد فرمایا ہے لیکن آیا یہ سب گفتار کے غازی ہی بنے رہیں گے یا پھر کبھی کردار کا غازی بھی بننے پر توجہ دی جائے گی مشکل امر یہ ہے کہ ہماری اسمبلیوں میں تقریریں تو بہت ہوتی ہیں شعلہ بیانی کا ریکارڈ تو ٹوٹ جاتاہے مگر حقیقی اور عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا خواہ دور حکومت جوبھی ہودیکھا جائے توخیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبے کے مسائل اور حقوق کے حوالے سے ہمارے غمخواروں نے کافی متاثر کن باتیں کی ہیں اورحکومت سے اس مد میں تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی ہے امر واقع یہ ہے کہ صوبے کے وہ سیاست دان جوصوبے کے حقوق کے نام پر سیاست کرتے آرہے ہیں جب تک وہ اپنے موقف پر قائم رہے حلقے اور صوبے کے عوام نے ان کو عزت دی اور جب مصلحتوں کی ردا اوڑھے نظر آئے تو معدوم ہوتے گئے یا پھر مرحوم ہو گئے مشکل امر یہ ہے کہ اب پورے صوبے میں کسی ایک سیاسی جماعت میں ملکی سطح کا کوئی قدآور سیاستدان نظر نہیں آتا بونوں کو بات کرنے اور منوانے کا سلیقہ نہیں آتا اب صوبے کے حوالے سے ہر آواز ‘ روتے روتے بیٹھ گئی آواز قتیل شفائی کی قسم کی نظر آتی ہے صوبے میں جب کوئی قد آور
رہنما ہی نہیں جو صوبے کی آواز بن سکے اور ایک دو ہیں بھی تو ان کی ترجیحات اب بدل گئی ہیں مشکل امر یہ ہے کہ وہ شریک اقتدار ہوں تو ان کی مشکل پر مصلحت کی چادر تن جاتی ہے اور اگر وہ اپوزیشن میں ہوں تو ان کی جدوجہد اقتدارکے ایوانوں تک رسائی کی ہوتی ہے صوبائی اسمبلی میں ا ظہار خیال کرنے والے اراکین کم و بیش ہر سیاسی جماعت کے ممبران اسمبلی تھے ان کے خیالات اور حکومت سے تعاون کی پیشکش احسن ہے لیکن اس وقت جبکہ پورے ملک میںایک علیحدہ قسم کی فضا بنی ہوئی ہے ایسے میں اسمبلی میں اس طرح کی بحث نقارخانے میں طوطی کی آواز کا ہم پلہ ہے مستزاد مرکز اور صوبے کے تعلقات جب ایک خاص دائرہ کار میں نہ رہیں تو پھر کسی سے گلہ مندی کے اظہار کی بھی گنجائش نہیں ہم نے قبل ازیں بھی انہی سطور میں سیاسی مخاصمت اور حالات سے علی الرغم صوبے کی حکومت کی مرکزی حکومت سے آئینی اور دستوری تعلقات کو متاثر نہ کرنے کی گزارش کر چکے ہیں مگر جہاں سیاست اور اپنا لیڈر ہی ترجیح اول ہو وہاں عوامی حقوق اور معاملات کا نظر انداز ہونا فطری امر ہوتا ہے مشکل امر یہ ہے کہ صوبے کے عوام نے جس پارٹی کو صوبے سے لے کر مرکز کے حکمران بننے کی اینٹ رکھی تھی افسوسناک طور پر اس حکومت سے بھی ہماری توقعات پوری نہ ہوئیں۔سابق دور حکومت میں یہ عین ممکن تھا کہ خیبر پختونخوا کو بجلی کے خالص منافع کی مکمل رقم این ایف سی ایوارڈ میں ضم اضلاع کے حصے کی تین فیصد رقم اور دیگر تمام حصہ داری کے معاملات کو طے کرنا اتنا مشکل نہ تھا مگر کہوار کہاوت کے تئیں حسن باقی نہیں رہتی مگر گلہ عمر بھرباقی رہنے والی چیز ہے ۔ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت تو نہیں رہی مگر صوبے کے عوام شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ ان کی توقعات پوری نہیں ہوتیں وزیر اعلیٰ ‘ وزیر خزانہ اور حکمران جماعت سے زیادہ یہ حزب اختلاف کے اراکین کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ احتجاج کرتے سڑکوں پر نکل آتے تاکہ محولہ عہدیداروں کو اپنی قیادت سے بات کرنے کا موقع مل جاتا مرکز اور صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کے صوبائی حقوق کے حوالے سے ماحول نہ ہونا تو فطری امر ہے یہاں ایک ہی جماعت کی حکمرانی کا عوام کا تجربہ بھی خوشگوار نہ رہا جب گزشتہ دور حکومت میں یعنی اچھے وقتوں میں جو کام نہ ہوسکا اب اس کی توقع ہی عبث ہے بہرحال صوبے کا حق بہر قیمت لینے کے عزم کا تقاضا ہے کہ مرکزی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے سنجیدہ رویہ اختیار کیا جائے صوبے کی جن جماعتوں کی وفاقی حکومت میں حصہ داری ہے انہیں اپنی قیادت سے رابطہ کرکے مرکزی حکومت پر دبائو ڈالنے کی سعی کرنی چاہئے ورنہ قراردادوں کی منظوری پہلے بھی ہو چکی ہے اور صدا بصحرا ہونا بھی کوئی راز کی بات نہیں دیکھا جائے تو ناخوشگوار ماحول کے باوجود بھی صوبائی حقوق کے حصول کے لئے حالات ناسازگار نہیں بشرط یہ کہ جذباتی تقریروں کی بجائے عملی طور پر سنجیدہ سعی نظر آئے۔

مزید پڑھیں:  آبی وسائل کا مؤثر استعمال