جان ہے تو جہاں ہے پیارے

بات ابھی تک تھمی نہیں بلکہ جب سے شروع ہوئی ہے اس کی تازگی اسی طرح برقرار ہے ہر چند کہ درمیان میں اور بہت سی کہانیاں سامنے آگئی ہیں ‘ خاص طور پر جو شہباز گل نے ایک ٹی وی چینل پر قابل اعتراض بلکہ قابل مذمت گفتگو فرما کر نہ صرف اپنے لئے بلکہ تحریک انصاف کے لئے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں اور جس کی وجہ سے نہ صرف تادم تحریر خود بھی انگریزی مقولے کے مطابق”ہاٹ واٹر” میں ہے بلکہ محولہ پروگرام کی وجہ سے متعلقہ چینل کا ایک اینکر ملک سے فرار بھی ہو گیا ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق اینکر کو ملک سے فرار ہونے میں مبینہ طور پر خیبر پختونخوا حکومت کے ایک اہم عہدیدار کا ایک سرکاری ملازم سہولت کار کے طور پر استعمال ہوا ہے حقیقت کیا ہے یہ تو تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا ‘ جبکہ اسی چینل کے چند دوسرے افراد کا نام بھی اس حوالے سے سامنے آرہا ہے کہ شبہاز گل کے قابل اعتراض”تصویر” کو آسانی سے آن ائیر جانے کی ذمہ داری بھی انہی افراد پر ہے ‘ یہ بھی بہرحال تحقیق طلب بات ہے اور جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ کون اس معاملے میں کس حد تک ملوث رہا ہے کیونکہ چینل کے ایک عہدیدار کو گزشتہ روز رات کے وقت حصار میں لیکر ان سے تفتیش کی گئی مگر بعد میں انہیں بری الذمہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا ‘ بہرحال جن لوگوں کے نام اس ضمن میں لئے جارہے ہیں ان کے بارے میں خبریں سامنے آسکتی ہیں البتہ شہباز گل کے فون کی تلاش میں ان کے ڈرائیور کی تلاش کے دوران ڈرائیور کی اہلیہ کو حراست میں لیکر اسلام آباد پولیس نے جو ”نیک نامی” کمائی ہے اس پر بھی ملک کے اندر احتجاج جاری ہے کہ موصوفہ کی دس ماہ کی بچی کو اس سے ملنے نہیں دیا جارہا تھا جس پر عدالت نے اعتراض کرتے ہوئے بچی کو ماں سے ملوانے میں کردار ادا کیا ‘ اس صورتحال پر صحافتی حلقوں نے بھی احتجاج کیا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ایک طوفان بپا ہے ۔ سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ ہمارے ملک کی پولیس کا رویہ کب بدلے گا اور قانون و آئین سے ماورا اقدام تو پولیس کرتی ہے لیکن بدنامی حکومت کی ہوتی جاتی ہے تاہم کوئی بھی برسراقتدار سیاسی جماعت یا جماعتیں اس قسم کے حالات کو سدھارنے کی کوشش نہیں کرتیں اور عوام کے دلوں میں اپنے خلاف نفرتیں پیدا کرتی ہیں ایسے غیر قانونی اقدامات کے حوالے سے برسر اقتدار جماعتیں کسی بھی معقول بات پر کوئی توجہ نہیں کرتیں ‘ بقول احسان دانش
ہمارے سامنے ہر وقت انجام شکایت تھی
کہی کو ان کہی کردی ‘ سنی کو ان سنی ہم نے
بات کسی او حوالے سے کرنی مقصود تھی لیکن درمیان میں کچھ سخن گسترانہ باتیں درآئیں ‘ اور بات جو ہم کرنا چاہتے تھے یہ تھی کہ تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیر ا عظم عمران خان نے ضمنی ا نتخابات کے نو حلقوں سے اکیلے ہی انتخاب لڑنے کافیصلہ کیا ہے جس پر سیاسی حلقوں میں
بحث جاری ہے کچھ لوگ اس پر اعتراضات بھی اٹھا رہے ہیں جبکہ تحریک کے اندرونی حلقے خصوصاً سوشل میڈیا پر تحریک کے جو ٹرولز بہت سرگرم ہیں وہ اس پر بھنگڑے ڈال کر پی ڈی ایم والوں کو ”خبردار ‘ ہوشیار ”قسم کے بیانیوں سے چیلنج دے رہے ہیں ‘ یہ معاملہ یعنی نو حلقوں میں بہ یک وقت انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا آئین اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے ‘ ماضی میں چونکہ بہ یک وقت تین سے پانچ حلقوں میں ایک ہی وقت میں بعض رہنمائوں کے انتخابات لڑنے کی مثالیں موجود ہیں ‘ جن میں ذوالفقار علی بھٹو اور خود عمران خان بھی شامل ہیں ‘ اس لئے بعض آئینی ماہرین نہ تو آئین کے حوالے سے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہیں نہ اس میں کوئی قباحت سمجھتے ہیں ‘ البتہ ایک سوال یہ ضرور اٹھایا جارہا ہے کہ عمران خان تادم تحریر چونکہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی ہیں اور اس حوالے سے تمام مراعات بھی اپنے دوسرے ممبران کی انجوائے کر رہے ہیں اور جب تک اسمبلی سے ان کا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے انہیں الیکشن کمیشن ڈی سیٹ نہ کر دے وہ اسی اسمبلی کے انتخاب کیسے لڑ سکتے ہیںتاہم ایک آئینی اور قانونی رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جیسے ہی ان کے کاغذات اور قانونی موشگافیاں ہیں اور اس حوالے سے اگرکوئی اس صورتحال کو چیلنج کرتا ہے تو یہ جنگ پہلے الیکشن کمیشن اور بعد میں اگر ضرورت ہوئی تو عدالتوں میں لڑی جا سکے گی ‘ لیکن ایک بات جس پر سنجیدہ حلقے بہت زیادہ معترض بھی ہیں اور ان کے درمیان بحث کا آغاز بھی ہو چکا ہے کہ فرض کریں عمران خان تمام کے تمام نو حلقوں میں انتخابات جیت جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ کیونکہ انہوں نے نشست تو ایک ہی رکھنی ہے یعنی باقی کے آٹھ حلقوں میں دوبارہ انتخابات کرانے ہوں گے تو تب عمران خان کیا کریں گے یعنی وہ اپنی جماعت کے نمائندوں کو ان آٹھ حلقوں کے لئے نامزد نہیں کریں گے؟ دراصل صورتحال میں اس قدر الجھائو پیدا ہو چکا ہے کہ اب تحریک انصاف کو”معقول” امیدوار مل
ہی نہیں رہے جو مقابلے میں اتر سکیں ‘ اس لئے اس صورتحال سے بچنے اور ”عزت سادات” بچانے کے لئے عمران خان بہ امر مجبوری خود میدان میں اتر رہے ہیں تاکہ اپنے فالورز کے مورال کو ڈائون ہونے سے بچائیں یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ جب وہ اور ان کی جماعت کے دیگر ارکان ابھی تک بطور قومی اسمبلی کے اراکین کے طور پر مکمل مراعات سے بھر پور استفادہ کر رہے ہیں تو وہ اپنے ہی ہاتھوں سیاسی خود کشی کیوں کرنا چاہتے ہیں اور جس طرح وہ جماعتی پالیسی کے تحت اپنے استعفوں کو یکمشت قبول کرنے پر زور دے رہے ہیں تو پھر دوبارہ انتخابی معرکے میں کیوں اترنا چاہتے ہیں؟ حکومت نے انتخابات کرانے کے لئے جو شرط رکھی ہے اس پرعمران خان عمل کرنے کو تیار نہیں یعنی وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے ہوئے اس بات پرراضی نہیں ‘ تو پھر پی ڈی ایم کیسے اس کے جھانسے میں آکر اپنے پائوں پر کلہاڑی مارسکتی ہے ‘ ویسے بعض تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ جو آجل کی شہباز گل کے ذریعے صورتحال پیدا کی گئی ہے جس پر بحث و مباحثہ ہور ہا ہے ‘ اس کا مقصد الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے سے جان چھڑا کر اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی