عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس

دہشت گردی کی حالیہ لہر کے دوران پچھلے چند دنوں میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی مختلف وارداتوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے5جوانوں سمیت 2شہری شہید اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں پولیس وین بارودی سرنگ سے ٹکراگئی۔ خضدار میں یوم آزادی کی مناسبت سے لگائے گئے قومی پرچموں کے سٹال پر دستی بم حملہ میں 9افراد زخمی ہوئے۔ جمرود میں ایف سی کی چوکی پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک جوان شہید اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں ہونے والے خودکش حملے میں سکیورٹی فورسز کے 4جوان شہید ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں 2دہشت گرد بھی مارے گئے ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر پر ارباب اختیار اور عوام الناس کی تشویش بجا طور پر درست ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ میر علی میں خودکش حملے کے سہولت کاروں کا کھوج لگانے کے لئے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ ان واقعات سے چند دن قبل خیبر پختونخوا کے علاقے دیر میں دہشت گردوں کے حملے میں تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی کے بھائی اور بھانجے سمیت متعدد افراد شہید و زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں علاج معالجے کے لئے اسلام آباد منتقل کردیا گیا ہے۔ گو اس افسوسناک واقع پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے پھر بھی یہ سوال درست ہے کہ آخر خیبرپختونخوا میں تبدیلی سرکار ایک بھی ڈھنگ کا ہسپتال کیوں نہ بنا سکی ؟ ادھر زخمی رکن اسمبلی کے خاندانی ذرائع نے ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے 3کروڑ روپے بھتہ دینے کا پیغام موصول ہوا تھا جسے انہوں نے مسترد کردیا۔ دہشت گردی کے ان واقعات کے بیچوں بیچ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سوات کے علاقے مٹہ کے پہاڑوں پر مسلح جنگجو قابض ہوچکے ہیں ان
جنگجوئوں نے مذاکرات کے بعد اپنی تحویل میں موجود مغوی سرکاری اہلکاروں کو جن میں ایک زخمی ڈی ایس پی بھی شامل ہیں جرگے کے حوالے کردیا۔ گزشتہ سے پیوستہ روز دیر میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بھتہ دینے کی پرچیوں کے خلاف مقامی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ جلوس کے شرکا نے علاقے میں کالعدم ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر شدید احتجاج کیا جبکہ جمعہ کو سوات میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ہزار ہا لوگ بھتہ خوری کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے احتجاج کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے مقرریرن نے موجودی صورتحال کو سوات اور ملحقہ علاقوں کی سیاحتی انڈسٹری اور کاروباری سرگرمیوں کیلئے خطرناک قرار دیا ، ادھر گزشتہ روز بھی وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ خیبر پختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کے منظم ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں اسی دن قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے رکن اسمبلی محسن داوڑ نے صوبے میں امن و امان کی ابتر صورتحال پر تشویش ظاہر کی۔ شمالی وزیرستان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق حکومت اور احتجاجی دھرنے کے شرکا کے درمیان حالیہ معاہدہ کے بعد کالعدم تحریک طالبان نے مقامی مشران کے نام ایک خط بھجوایا ہے جس میں انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ حکومت اور سکیورٹی فورسز سے امن معاہدوں سے باز رہیں، علاقے میں امن صرف ہم قائم کرسکتے ہیں۔
فی الوقت حالات یہ ہے کہ مندرجہ بالا تفصیلات نہ صرف انتہائی تشویشناک ہیں بلکہ اس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ خاکم بدہن پختونخوا میں طالبان گردی کا ویسا ماحول بننے جارہا ہے جو 2004 سے 2014 کے درمیان تھااور اس میں ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ خیبر پختونخوا میں پچھلے نو برسوں سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے گزشتہ روز پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کالعدم تنظیم کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت کے رہنمائوں کو بھتہ دینے کے پیغامات موصول ہورہے ہیں۔ وفاقی وزیر خواجہ آصف، سابق وزیراعظم عمران خان اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے جن خدشات اور تشویش کا اظہار کیا ہے انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ایک پیج پر ہوں۔ طالبانائزیشن کی حالیہ لہر کے مقابلہ کے لئے دونوں کواپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے سکیورٹی فورسز کے ذمہ داران کے تعاون سے موثر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ ثانیا یہ کہ جنگجوئوں کی بعض علاقوں میں واپسی اورسرگرمیوں پر سیاست چمکانے کی بجائے حقیقت پسندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں پشتون قوم پرست رہنما افراسیاب خٹک کا یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ خیبر پختونخوا میں جنگجوئوں کی تازہ سرگرمیوں اور دہشت گردی کی حالیہ لہر پر یہ نہیں سوچنا کہنا چاہیے کہ طالبان جانے اور پٹھان جانے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے حکومت، سیاسی جماعتوں، عوام اور سکیورٹی فورسز میں یکسوئی ضروری ہے سب کو مل کر اس خطرے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہماری دانست میں دہشت گردی کی حالیہ لہر اور کالعدم تنظیم کی خیبر پختونخوا میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے سب کو مل بیٹھ کر مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ وسیع تر قومی اتحاد ہی وہ واحد صورت ہے جو دہشت گردی میں ملوث قوتوں کو شکست دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ سیاسی قائدین اور دیگر ذمہ داران کو بطور خاص اس بارے سوچنا اور لائحہ عمل وضع کرنا ہوگا، یہی وقت کی ضرورت ہے۔ وقت کی اس فوری ضرورت کو نظر نہیں کیا جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت