طول شب فراق سے گھبرا نہ جائے دل

یہ ایک سرکل ہے جس نے بے بس ‘ مظلوم اور غریب عوام کوگھیر رکھا ہے ‘ موسم کی تبدیلی سے سرکار کو کیا فرق پڑتا ہے ‘ مرنا ہے ‘ زندہ درگور ہونا ہے ‘ تو عام آدمی نے ‘ جس نے گرمی میں بجلی کے جھٹکے کھا کھا کر ادھ موا ہونا ہے صرف اس امید پر کہ گرمی گزر جائے گی اور بجلی کا استعمال کم ہو گا تو بجلی بلوں میں کمی سے تھوڑا بہت سکھ کا سانس لیں گے ‘ مگر ابھی موسم نے انگڑائی بھی نہیں لی ہوتی کہ سردی کی آمد کے ساتھ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اعلانات رہی سہی کسر پوری کردیتے ہیں یوں یہ سرکل چلتا رہتا ہے ‘ بجلی کے بل عارضی طور پر کم ہوتے ہیں تو گیس کے بل بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں ‘ اس طرح یہ گھمن گھیری غریب عوام کو سکھ کا سانس لینے سے کوسوں دور رکھنے کا باعث بنتی ہے مستزاد یہ کہ گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ عذاب کا باعث بنتی ہے توسردیوں میںگیس کی عدم دستیابی سے وہ ”سنہرے دن” اب خواب بنتے جارہے ہیں جب لوگ نہ صرف سہولت سے گھروں کے چولہے آسانی سے جلا کر کھانے پکانے کے فرائض سے سبکدوش ہو جاتے تھے ‘ بلکہ شدید سردی میں جب ہاتھوں اورپائوں کپکپانا شروع کر دیتے تھے تو کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی کہ سردی تو کچھ نہیں کہتی ‘ کپکپی سے جان جاتی ہے ‘ بلکہ وہ گیس ہیٹر جلا کر سردی کی شدت کا توڑ کرلیتے اوپرسے گیزر سے ضرورت کے وقت گرم پانی حاصل کرکے وضو ‘ غسل ‘ منہ ہاتھ دھونا بھی پرلطف بلکہ عیاشی ہی سمجھا جاتا ‘ مگر جب سے سوئی گیس حکام نے گزشتہ سال وزیر اعلیٰ محمودخان کو شہر میں بڑی قطر کے پائپ کی تنصیب کا لالی پاپ تھما کرصرف تین دن کی مہلت طلب کی تھی جس کے بعد پشاور میں گیس کی فراہمی نے معمول پرآنا تھا ‘ تب سے ایسا لگ رہا ہے کہ ان ”تیندن ‘ تین راتوں” کی طوالت بقول شاعر طول شب فراق کی شکل میں ڈھل چکی ہے جس کی وجہ سے عوام پر گھبراہٹ کی کیفیت چھا چکی ہے یعنی
طول شب فراق سے گھبرا نہ جائے دل
ویسے سوئی گیس حکام میں یقینا کوئی ایسا بھی موجود ہے جسے ادب سے گہری دلچسپی ہے اور اس نے سیماب اکبر آبادی کا یہ شعرضرور نہ صرف سن رکھا ہے بلکہ اس کے مفہوم کو بھی پوری طرح سے سمجھ ‘ پرکھ لیا ہوگا کہ
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دوانتظار میں
اس لئے انہوں نے بجائے چار دن کے ‘ وزیر اعلیٰ سے تین دن کی مہلت طلب کی تھی ‘ یوں آرزو والے دو دن کے بعد انتظار کے دو دنوں کو آپس میں جوڑ کر انہیں مجموعی طور پر تین دن تو کر دیا مگر اس تیسرے دن کی طوالت کو طول شب فراق میں تبدیل کرکے عوام الناس کو صبر کی تلقین کر دی ہے اور بقول مرزا غالب
جاتے ہوئے کہتے ہوقیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
اب تازہ صورتحال ”قیامت” سے کم کیا ہوگی کہ وزارت پٹرولیم نے عوام کے ہوش ٹھکانے لگانے کا بندوبست کرتے ہوئے گیس کے ایک بڑے بحران کے خدشات ظاہر کردیئے ہیں جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہی ہے کہ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو ‘ وزارت کے ایک تازہ اعلامیہ کے مطابق سردیوں میں طلب و رسد کے تناسب سے گیس لوڈ مینجمنٹ پلان تیار کر لیاگیا ہے ‘ وزارت پٹرولیم کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت رواں برس گیس بحران میں شدت کا خدشہ ہے موسم سرما میں گیس کی دستیابی اور طلب کا تخمینہ لگا لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ایل این جی کی درآمد کے لئے منصوبہ بندی کر لی گئی ہے ۔ وزارت نے ترجیحا بھی طے کر لی ہیں اور گھریلو صارفین کو 24گھنٹوں میں تین اوقات گیس فراہم کی جائے گی ‘ اس صورتحال پر کیا تبصرہ کیا جائے یعنی وہ جو پشتوزبان میں کہتے ہیں کہ یتیم رونے کا عادی ہوتا ہے تو گھریلو صارفین تو گزشتہ کئی برسوں سے اپنی بے بسی پر آنسو بہانے کے عادی ہوچکے ہیں اوراب انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پن بجلی میں خود کفالت کے باوجود جس طرح قومی گرڈ سے صوبہ خیبر پختونخوا کو اپنے مقرر کردہ کوٹہ سے بھی کہیں کم بجلی مہیا کی جاتی ہے اور عوام کو گرمیوں کے موسم میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج پرمجبور کیا جاتا ہے ‘ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 158 کی دھجیاں اڑا کر صوبے کی اپنی قدرتی گیس کو بھی ترجیحی بنیادوں پر صوبے کودینے میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں ‘ مگر سابقہ اور موجودہ کئی صوبائی حکومتیں وفاق سے اپنا یہ حق لینے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں ۔ اس صورتحال پر نورالہدیٰ شاہ کی ایک مختصر آزاد نظم یاد آرہی ہے
ہم شناختی کارڈ پر لکھے ہوئے لوگ ہیں
ہم کہیں بھی اپنا وجود نہیں رکھتے
سرکاری فائل کی خانہ پری میں مگر ہم موجود ہیں
ہمارے پیروں تلے کی زمین ہماری نہیں
کسی غاصب کا پلاٹ لکھی جاتی ہے
ہمارے پتے پر لاپتہ لکھا ہوا ہے
ہم چیک پوسٹ پر تلاشی دیتے ہیں
ہماری جیبوں میں غدار ڈھونڈے جاتے ہیں
صورتحال اب ایک نیا ٹرن لے رہی ہے ‘ سوئی نادرن گیس کمپنی نے کمرشل صارفین کے لئے فی یونٹ قیمت دوگنا سے بھی زیادہ کر دی ہے یعنی گیس کی قیمت فی یونٹ 1283سے بڑھا کر 3763 روپے کر دی گئی ہے ‘ اس خبر کی تفصیل میں جانے کی بجائے اس کے مضمرات کو دیکھتے ہیں ‘ یعنی اس کے اثرات ہر ‘ ہر قدم پر عام لوگوں پر ہی پڑنے ہیں ‘ اور جن جن شعبوں نے کمرشل گیس استعمال کرنی ہے ان شعبوں کے اخراجات بڑھ جانے کے بعد اضافی اخراجات بہر طور اور بہر صورت عوام ہی نے برداشت کرنے ہوں گے ۔ بقول ڈاکٹر نذیر تبسم
آپ سے کس نے کہا تھا کہ محبت کیجے
آپ تو اہل سیاست ہیں ‘ سیاست کیجے
آپ سے کوئی توقع بھی نہیں ہے ہم کو
آپ بے شک کسی جابر کی حمایت کیجے

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں