ہے کلیوں کو یہ غم ‘ بکھرے گا اب پندار کا موسم

وسم بدلا ‘ رت گدرائی ‘ جی ہاں جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں تو ہلکی ہلکی بارش کا سلسلہ چل رہا ہے اس سے پہلے زبردست ژالہ باری اور تیز بارش نے جل تھل کا سماں پیدا کر دیا تھا ‘ اب اہل جنوں کا تو معلوم نہیں کہ وہ اسی موسم میں بے باک ہو جاتے ہیں یا وہ کوئی اور موسم ہوتا ہے ‘ کم از کم اس بات کا ہمیں کوئی تجربہ نہیں ‘ احمدفراز نے البتہ انسانوں کے ساتھ موسم کی کج ادائیوں کو جوڑ کرضرور کہا تھا کہ
اب کے موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں
موسم اور انسان کے حوالے سے خود ہم نے آج سے لگ بھگ اٹھارہ برس پہلے ستمبر 2004 میں چند اشعار کہے تھے
بدل جاتا ہے ہر لمحہ مرے دلدار کا موسم
ابھی انکار کا موسم ‘ ابھی اقرار کاموسم
قلم قتلے ‘ زبانیں گنگ ‘ سوچوں پر کئی پہرے
جناب شیخ کے ہاں یوں بھی ہے اظہار کا موسم
گلوں کی پتیاں سب جھڑ گئی ہیں باد صرصر سے
ہے کلیوں کو یہ غم ‘ بکھرے گا اب پندار کاموسم
جوسوچیں منجمدہوں ‘ برف آلودہ تحیر سے
تو پھرلائیں کہاں سے گرمیٔ اظہار کا موسم
یہ جو موسم نے بالآخر انگڑائی لے لی ہے تو اس نے سردیوں کو دعوت بھی دے ڈالی ہے ‘ ابتک تو اتنا تھا کہ گزشتہ دو ڈھائی ہفتوں سے لوگوں نے پنکھوں کو الوداع کہا تھا ‘ ایئرکنڈیشنرز اگرچہ ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہی یار لوگوں نے بند کرکے صرف پنکھوں سے کام چلانا شروع کر دیا تھا مگر اس کے باوجود بجلی کے بلوں کی شکایات کم ہونے میں نہیں آرہی تھیں ‘ کہ یہ جو آئی ایم ایف کے ساتھ سرکار نے معاہدہ کر لیا تھا اس میں یوٹیلٹی بلز میں مسلسل اضافے کے وعدے و عید بھی کر رکھے تھے ‘ اب ہمیں یعنی عوام کو اس سے کیا غرض کہ یہ معاہدہ سابق حکومت نے کیا تھا یا موجودہ حکومت نے اور سابقہ حکومت نے جاتے جاتے بجلی کی قیمتیں کم کرکے آنے والوں کے لئے ” اقتصادی بارودی سرنگیں” بچھا کر کیا گل کھلائے تھے ‘ کہ بقول شاعر مگر فرق اس سے تو پڑتا نہیں یعنی عوام نے ایک خربوزے کی مانند کٹنا ہی تھا ‘ اگرچہ ہرسیاسی جماعت عوام دست ہونے کی دعویدار ہے مگر ہر دور میں انہی دوستوں کے ہاتھوں عوام کا جو حشر ہوتا ہے اس کو رانا سعید دوشی نے کتنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے کہ
میرا یہ خون مرے دشمنوں کے سر ہوگا
میں دوستوں کی حراست میں مارا جائوں گا
سوعوام کے ”خون” آئی ایم کے سرباندھتے ہوئے ‘ عوام کے دوستوں کی مہربانیوں سے ان کی قربانیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ بات کسی اور جانب نکل گئی ‘ حالانکہ موسم کی خوبصورتی کا ذکر کرنا مقصود تھا ‘ اور آج صبح ہی صبح ژالہ باری اور تیز بارش نے جو سماں باندھا اس کو آرزو لکھنوی نے یوں بیان کیا ہے
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا ‘ موسم کی کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ‘ ڈوب چلا میخانہ بھی
اب کیا کریں کہ اس کم بخت موسم کے ساتھ ہمارے ادب میں جوبرتائو کیا جاتا ہے اس کوغالب کی زبان میں یوں بھی توبرتا جاتا ہے کہ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر ‘ یہ تو شکر ہے کہ انگریز کے جاے کے بعد اور بعد میں ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کے دوران Prohibition law لاگو ہونے کے بعد وہ جو ہر شہر میں مختلف مقامات پر میخانے کھلے ہوتے تھے ‘ ان پر پابندی لگا دی گئی ‘ تاہم یار لوگوں نے دخت رز کی جگہ ”شہد” استعمال کرنا شروع کردیا اور غالب کے اس شعر کو بھی متروک کا جامہ پہنا دیا کہ
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے
مرزا غالب بھی قویٰ مضحمل ہونے کے بعد توبہ کر لی تھی اور یہ کہنے پرمجبور ہوگئے تھے کہ
غالب چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابرو شب ماہتاب میں
بھٹو صاحب نے بھی ملک میں شراب نوشی پرپابندی اس دور کے حزب اختلاف پی این اے کے دبائو پر تب لگا دی تھی جب انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے تحت انتخابی نتائج ماننے سے انکار کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کے مطالبات زور پکڑنے لگے اور بھٹو مرحوم پر شراب نوشی کے الزامات لگائے گئے ‘ تو انہوں نے اپنے خطاب میں اس الزام کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہاں میں پیتا ہوں ‘ مگر عوام کا خون تو نہیں پیتا” تاہم مخالفین کے دبائو پرانہوں نے نہ صرف شراب پر پابندی عاید کی تھی بلکہ اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کا بھی اعلان کرکے حزب اختلاف کورام کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی حکومت کے چل چلائو کا ”موسم”آگیا تھا اور مخالف سیاسی قوتوں نے اپنا احتجاج جاری رکھا ‘ جس کے بعد ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے اقتدار پرقبضہ کرلیا تھا ‘ یوں ملک میں جمہوریت کاموسم غروب ہوتا چلاگیا اور گیارہ برس تک آمریت کی برسات نے جوگل کھلائے وہ تاریخ ہے ۔ اگرچہ انہوں نے جمہوریت کی بحالی کا وعدہ کرتے ہوئے مختصر مدت تک مارشل لاء جاری رکھنے کااعلان کیاتھا مگر ان کاوعدہ ۔۔۔ بقول شاعر
مرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا
کسی سے سن لیا ہوگا کہ دنیا چاردن کی ہے

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد