عمران خان پر حملہ ، پنجاب حکومت پر اٹھتے سوالات

سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے حقیقی آزادی لانگ مارچ کے ساتویں روز وزیر آباد میں اللہ والا چوک پر ہونے والے قاتلانہ حملہ میں سابق وزیراعظم عمران خان سمیت 13افراد زخمی اور ایک کارکن جاں بحق ہوگیا۔ لانگ مارچ کے آغاز سے قبل ایک سے زائد مواقع پر عمران خان نے الزام لگایا کہ انہیں قتل کرنے کی سازش تیار کی گئی ہے۔ جمعرات کو ان پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کے بعد پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ میں نے گزشتہ شب احمد چٹھہ کو فون پر خبردار کیا تھا کہ عمران خان پر وزیرآباد میں قاتلانہ حملہ ہوسکتا ہے۔ عمران خان کی جانب سے قتل کی سازش کے الزام اور اعجاز چودھری کے موقف کے پیش نظر انتہائی ضروری تھا کہ لانگ مارچ اور بالخصوص عمران خان کی فول پروف سکیورٹی کا انتظام کیا جاتا۔ قاتلانہ حملے نے نہ صرف سکیورٹی کے انتظامات کا بھانڈہ پھاڑدیا بلکہ تحویل میں لئے جانے والے ملزم کے ویڈیو بیان کو جس طرح لیک کیا گیا اس پر بھی سوالات اٹھ ر ہے ہیں۔ جذباتی تقاریر، بدلہ لینے کا عہد، گلی گلی میں جواب دینے کا عزم اور الزام تراشی سے یقینا شفاف تحقیقات کو کوئی مدد نہیں مل سکے گی۔ بنیادی طور پر دو سوال ایسے ہیں جنہیں نظرانداز کرنا ازبس مشکل ہے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ جب عمران خان یہ کہہ چکے تھے کہ ان کے قتل کی سازش تیار کرلی گئی ہے تو ان کی سیاسی سرگرمیوں اور پچھلے جمعہ سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے حوالے سے سکیورٹی انتظامات کیا تھے اور انہیں کون دیکھ رہا تھا۔ نیز یہ کہ کیا پنجاب حکومت جس کی حدود سے لانگ مارچ شروع ہوا اور ساتویں روز جب حملہ ہوا تو لانگ مارچ پنجاب کی ہی حدود میں تھا اس نے اس حوالے سے کیا انتظامات کئے؟ دوسرا سوال سینیٹر اعجاز چودھری کے انکشاف کے حوالے سے ہے انہوں نے صرف احمد چٹھہ کو وزیر آباد میں قاتلانہ حملے کی اطلاع دینا ہی کافی کیوں سمجھ لیا اس اطلاع پر انہوں نے وزیراعلیٰ، صوبائی مشیر داخلہ آئی جی اور آر پی او گوجرانوالہ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی؟ اصولی طور پر انہیں پارٹی رہنما کو خبردار کرنے کے ساتھ صوبائی حکومت سے اس پر بات کرنی چاہیے تھی۔ غالب امکان یہی ہے کہ اگر سینیٹر اعجاز چودھری اپنی اطلاع کے حوالے سے صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیتے تو ہنگامی طور پر ایسے اقدامات ممکن تھے جن سے یہ واقعہ ظہور پذیر نہ ہوپاتا۔ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول رہنما ہیں ان کی فول پروف سکیورٹی میں نقائص کی تحقیقات بھی اتنی ہی ضروری ہیں جتنا ضروری حملہ کی تحقیقات اور حقیقی وجوہات کو سامنے لانا ہے۔ ان کے حامیوں نے قاتلانہ حملے کی اطلاع ملتے ہی ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے ان مظاہروں میں براہ راست چند شخصیات اور ایک محکمہ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ احتجاجی مظاہرین کے نعروں اور الزامات کو جذباتی ردعمل بھی قرار دے دیا جائے تب بھی اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ گزشتہ سات ماہ کے دوران کی اپنی سیاسی مہم میں کی گئی تقاریر، بیانات اورانٹرویو سے عمران خان ایسی فضا بناچکے تھے کہ معمولی سا واقعہ بھی گھمبیر صورتحال پیدا کرنے کا موجب بن سکتا تھا۔
ہماری دانست میں جمعرات کے افسوسناک واقعہ کی آزادانہ شخصیات کے بغیر حتمی بات، رائے اور دعوی غیرضروری ہوں گے۔ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے لئے وزیراعلی پنجاب نے ہدایات جاری کردی ہیں۔ اس ضمن میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں چاروں صوبائی ہائیکورٹس کے ایک ایک جج پر مشتمل جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔ کمیشن کو ہی جے آئی ٹی کی تشکیل کے اختیارات ہونے چاہئیں اور اگر وہ ضروری سمجھے تو اس شعبہ کے علاقائی و عالمی ماہرین کی معاونت بھی حاصل کرے۔ اندریں حالات صائب تجویز یہی لگتی ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں بااختیار جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔ جہاں تک خود پر قاتلانہ حملے کے حوالے سے عمران خان کی جانب سے ذمہ دار ٹھہرائے گئے وزیراعلی شہباز شریف، وزیر داخلہ اور ایک ایجنسی کے اعلی افسر کا تعلق ہے تو یہ الزام بہت سنگین ہے یقینا عمران خان نے اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور پنجاب کے ایک سینئر وزیر کے توسط سے بیان جاری کروانے سے قبل اطمینان کرلیا ہوگا کہ قاتلانہ حملے کے پس منظر اور کرداروں کے حوالے سے ان کی معلومات درست ہیں اور وہ محض سیاسی نفرت کی بنیاد پر الزام نہیں لگارہے۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں نے عمران خان کے کنٹینر پر حملے کے کچھ دیر بعد جائے وقوعہ پر جمع کارکنوں اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے اس حملہ کا گلی گلی میں جواب دینے کے جس عزم کا اظہار کیا اسے بھی یکسرنظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری دانست میں سے ساری باتیں فی الوقت قبل از وقت ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آزادانہ تحقیقات ہوں۔ آزادانہ تحقیقات جس پر عمران خان اور ان کی جماعت ہی نہیں بلکہ وہ جن پر الزام لگارہے ہیں وہ بھی تحقیقاتی عمل پر اعتماد کا اظہار کریں۔ یہی وہ بنیادی معاملہ ہے جو اس تجویز کو تقویت دیتا ہے کہ اعلی سطحی عدالتی کمیشن ہی ماہرین کے تعاون سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرسکتا ہے۔ تحقیقاتی عمل پر کسی ایک فریق کا عدم اعتماد حالات کو بگاڑنے کا موجب بنے گا۔ یہاں ہم پی ٹی آئی کے رہنمائوں سے بھی یہ درخواست کریں گے کہ وہ جوش خطابت میں ہوش کو قائم رکھیں۔ غیرمحتاط الفاظ اور معمولی سی غلطی ایسے حالات پیدا کرسکتی ہے جنہیں سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ عمران خان کے کنٹینر پر حملہ ان سمیت درجن بھرافراد کا زخمی ہوجانا معمولی واقعہ ہرگز نہیں۔ سانحات سے بھری سیاسی تاریخ مزید کسی سانحہ کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی۔ اسی طرح ہم وفاقی حکومت کے ذمہ داران سے بھی درخواست کریں گے وہ بھی جوابِ آں غزل کا حق ادا کرنے کی بجائے اطمینان کے ساتھ اس امر پر غور کریں کہ کسی افسوسناک واقعہ کے بعد متاثرہ جماعت اور طبقہ کا ابتدائی ردعمل خاصا تلخ ہوتا ہے اور وقتی طور پر ایسی باتیں بھی کہہ دی جاتی ہیں جو صرف ردِعمل ہی ہوتی ہیں۔ اس لئے باتوں کا بتنگڑ بنانے اور جوابی الزامات کے میزائل چلانے سے اجتناب ہی کیا جانا چاہیے۔ بہت ضروری ہے کہ تمام سیاسی قائدین تحمل و بردباری کا مظاہرہ کریں اور ہرممکن طورپر آزادانہ تحقیقات کو یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں